اردو زبان کا تاریخی ارتقاء
اردو زبان کا تاریخی ارتقاء ایک پیچیدہ اور دلچسپ داستان ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔ اردو زبان کی تاریخ 800 سال سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے، جو جنوبی ایشیا کی ثقافتی اور لسانی تنوع کی عکاس ہے۔ یہ زبان ہندوستان کی گنگا-جمنی تہذیب کا نتیجہ ہے، جس نے مختلف لسانی، ثقافتی اور مذہبی اثرات کو اپنے اندر جذب کیا۔ اس کا ارتقاء مختلف ادوار میں ہوا، جس میں مقامی زبانوں، فارسی، عربی اور ترکی کے اثرات شامل ہیں۔
اردو جنوبی ایشیا کی ایک اہم اور بڑی زبان ہے۔ تقسیم ہند کے بعد اردو کی مقبولیت اور اہمیت مزید بڑھتی گئی۔ تقسیم سے پہلے یہ ہندوستان کی 22 قومی زبانوں میں سے ایک تھی۔ اردو اپنی چاشنی، حلاوت ،مٹھاس اور نغمگی میں ہندوستان کی تمام زبانوں سے برتر ہے۔ اس کے اندر حسن کو لڑی میں پروکر بیان کرنے اور راز کائنات کو خوبصورت مرقع میں پیش کرنے کی جو صلاحیت موجود ہے اس کا عشر عشیر بھی ہندوستان کی کسی زبان کو نصیب نہیں۔ اردو کی شہرت پاکستان اور بھارت کی سرحدوں کو عبور کرکے دنیا کے متعدد ملکوں تک اپنی چاشنی سے مستفید کر رہی ہے۔ اردو زبان کے تاریخی ارتقا اور اس کے ماخذ کےبارےمیں بات کرتے ہیں۔
:اردو زبان کا ابتدائی پس منظر (8ویں سے 12ویں صدی)
اردو زبان کی جڑیں ہند-آریائی زبانوں کے خاندان سے ملتی ہیں، جو قدیم سنسکرت سے نکلی ہیں۔ ہندوستان میں مسلم فتوحات (خاص طور پر سلطان محمود غزنوی اور پھر دہلی سلطنت کے قیام) کے ساتھ، فارسی، عربی اور ترکی زبانوں کے اثرات ہندوستان کی مقامی زبانوں پر پڑنے لگے۔ اس دور میں برصغیر کی مقامی زبانوں، جیسے پراکرت اور اپبھرنش، کے ساتھ وسطی ایشیائی زبانوں کا امتزاج شروع ہوا۔
:اپبھرنش زبان کا کردار
ہندوستان کی مقامی زبان ،اپبھرنش سنسکرت سے نکلنے والی درمیانی ہند-آریائی زبانوں کےدرمیان ایک پل تھی، یہ زبان جدید ہندوستانی زبانوں، جیسے ہندی، پنجابی، گجراتی اور اردو کی بنیاد بنی۔ اپبھرنش زبان سنسکرت سے نکلنے والی پراکرت زبانوں کا آخری مرحلہ تھی جو شمالی ہندوستان میں 6ویں سے 13ویں صدی تک بولی جاتی رہی۔ یہ زبان ہند-آریائی زبانوں کے ارتقا کا ایک پل تھی جس نے بعد میں اردو کی تشکیل میں اہم کردار اداکیا۔
اپبھرنش کے بہت سے الفاظ، گرائمر کا ڈھانچہ اور صوتی خصوصیات اردو میں منتقل ہوئیں۔اردو کے روزمرہ استعمال کے کچھ الفاظ اور بنیادی گرائمر کے قواعد اپبھرنش سے ملتے جلتے ہیں۔ جب مسلم حکمران ہندوستان آئے، تو اپبھرنش کی بولیوں، خاص طور پر خڑی بولی، نے فارسی، عربی اور ترکی الفاظ کو اپنانا شروع کیا۔ یہ امتزاج اردو کی تشکیل کا اہم مرحلہ تھا، کیونکہ اس نے اپبھرنش کی سادگی کو فارسی کی شاعرانہ اور ادبی گہرائی سے ملایا۔ اپبھرنش میں لکھی گئی شاعری، جیسے کہ دوہا اور چوپائی، نے اردو شاعری کی ابتدائی شکلوں کو متاثر کیا۔ امیر خسرو جیسےکئی صوفی شعراء نے اپبھرنش اور ابتدائی اردو (یا ہندوی) کو ملا کر ادب کو فروغ دیا۔فوجیوں اور تاجروں کے درمیان رابطے کی زبان کے طور پر “ہندوی” یا “ریختہ” (مخلوط زبان) وجود میں آئی۔
:فارسی اور عربی اثرات
مسلم حکمرانوں نے فارسی کو سرکاری زبان کے طور پر متعارف کیا، جس سے مقامی زبانوں میں فارسی الفاظ شامل ہونے لگے۔ عربی الفاظ بھی مذہبی اور علمی ضرورتوں کے باعث شامل ہوئے۔
:خڑی بولی اور ہندوی (13ویں سے 16ویں صدی)
اردو کی ابتدائی شکل کو “ہندوی” یا “دہلوی” کہا جاتا تھا، جو دہلی اور اس کے اطراف میں بولی جاتی تھی۔ یہ زبان خڑی بولی سے نکلتی ہے، جو مغربی ہندی کی ایک شاخ ہے۔
:خڑی بولی
یہ دہلی اور مغربی اتر پردیش کے علاقوں کی مقامی بولی تھی۔ اس کی گرائمر ہند-آریائی زبانوں سے ملتی جلتی تھی، لیکن اس میں فارسی، عربی اور ترکی کے الفاظ شامل ہونے لگے۔
:صوفی شاعروں کا کردار
صوفی شعرا، جیسے خواجہ معین الدین چشتیؒ اور دیگر، نے ہندوی کو مذہبی پیغامات پھیلانے کے لئے استعمال کیا۔ اس دور میں ہندوی کو فارسی رسم الخط میں لکھا جانے لگا، جو بعد میں اردو رسم الخط کی بنیاد بنا۔
:امیر خسرو کا کردار
13ویں صدی کے مشہور شاعر اور عالم امیر خسرو کو ہندوی کے فروغ کا اہم کردار تسلیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ہندوی میں نظمیں اور دوہے لکھے، جن میں مقامی بولیوں کے ساتھ فارسی اور عربی الفاظ کا خوبصورت امتزاج تھا۔امیر خسرو (1253–1325) کو اردو کا پہلا شاعر مانا جاتا ہے۔
:اردو کا ظہور (16ویں سے 18ویں صدی)
16ویں صدی تک ہندوی بتدریج ایک ایسی زبان کی شکل اختیار کر گئی جسے “زبانِ اردو” یا “ریختہ” کہا جانے لگا۔ مغل دور میں اس زبان نے مزید ترقی کی۔
:مغل دور کا اثر
مغلوں نے فارسی کو سرکاری زبان کے طور پر برقرار رکھا، لیکن عام لوگوں کے درمیان ہندوی یا ریختہ بولی جاتی تھی۔ مغل دربار میں فارسی شاعری کے مقابلے میں ریختہ شاعری بھی مقبول ہونے لگی۔
:دکنی اردو
دکن (جنوبی ہندوستان) میں اردو کی ایک شاخ “دکنی” کے نام سے پروان چڑھی۔ یہاں کے سلاطین، جیسے گولکنڈہ اور بیجاپور کے حکمرانوں نے دکنی شاعری کو فروغ دیا۔ دکنی اردو میں مقامی زبانوں (مراٹھی، تیلگو) کے اثرات زیادہ تھے۔ محمد قلی قطب شاہ جیسے شعرا ءنے دکنی کو ادبی زبان بنایا۔
:ریختہ کی ترقی
18ویں صدی میں دہلی اور لکھنو میں ریختہ شاعری عروج پر پہنچی۔ ولی دکنی، میر تقی میر اور سودا جیسے شعرا ءنے ریختہ کو ایک مکمل ادبی زبان کی شکل دی۔ اس دور میں “اردو” کا لفظ زیادہ عام ہوا، جو فارسی لفظ “اردو” (فوج یا لشکر) سے نکلا تھا۔
:اردو کی معیاری شکل (19ویں صدی)
19ویں صدی میں اردو نے اپنی معیاری شکل اختیار کی اور ایک مکمل ادبی، علمی اور سرکاری زبان بن گئی۔
:فورٹ ولیم کالج(کلکتہ)
1800ء میں قائم ہونے والے فورٹ ولیم کالج نے اردو نثر کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ کالج نے اردوکوباقاعدہ شکل دی۔یہاں اردو کے نثری متون(متن کی جمع۔اس کے معنی ریڑھ کی ہڈی ہے ۔ اصطلاح میں متون سےمراد ایسی کتابیں ہیں جو اس فن میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔متن سے مراد ایسی تحریر ہے جوکسی زبان میں لکھی جاتی ہے) تیار کیے گئے، جن میں تراجم، تاریخی کتابیں اور ادبی نثر شامل تھی۔- فورٹ ولیم کالج نے 1800 میں اردو کو باقاعدہ شکل دی۔ میر امن دہلوی کی تصنیف “باغ و بہار” کو اردو نثر کی پہلی کتاب سمجھا جاتا ہے۔ میر امن دہلوی کی تصنیف ایک داستان ہے جو انہوں نے 1801میں فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔
سر سید احمد خان اورمولوی عبدالحق جیسے مصلحین نے بھی اردو کو تعلیم اور ادب کی زبان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
:اردو-ہندی تنازعہ
19ویں صدی میں اردو اور ہندی کے درمیان لسانی تفریق واضح ہوئی۔ ہندی کو دیوناگری رسم الخط اور سنسکرت الفاظ کے ساتھ فروغ دیا گیا، جبکہ اردو نے فارسی رسم الخط اور فارسی-عربی الفاظ کو برقرار رکھا۔ اس تنازعہ نے اردو کو مسلم شناخت سے جوڑ دیا۔
:سرکاری زبان کا درجہ
1837ء میں برطانوی راج نے فارسی کی جگہ اردو کو شمالی ہندوستان میں سرکاری زبان بنایا، جس سے اردو نثر اور صحافت کو فروغ ملا۔
:جدید دور (20ویں صدی سے اب تک)
20ویں صدی میں اردو نے ترقی کی نئی منزلیں طے کیں۔
:تقسیم ہند اور اردو زبان
تقسیم ہند کے بعد اردو پاکستان کی قومی زبان بنی۔ پاکستان میں اردو کو تعلیمی، سرکاری اور ادبی زبان کے طور پر فروغ دیا گیا۔ ہندوستان میں بھی اردو ایک اہم ادبی اور ثقافتی زبان ہے۔
:ادبی تحریکیں
ترقی پسند تحریک، جدیدیت اور دیگر ادبی رجحانات نے اردو ادب کو عالمی سطح پر متعارف کرایا۔ فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، اور عصمت چغتائی جیسے ادیبوں نے اردو کو نئی جہت دی۔
:جدید میڈیا
آج کل اردو زبان ڈیجیٹل میڈیا، ٹیلی ویژن، فلموں اور سوشل میڈیا کے ذریعے فروغ پا رہی ہے۔
:اردو زبان کے ماخذ
اردو زبان کے ماخذ کو سمجھنے کے لیے اس کے لسانی، تاریخی اور ثقافتی اجزا کو الگ الگ دیکھنا ضروری ہے۔ اردو ایک “امتزاجی زبان” ہے، جو مختلف لسانی خاندانوں سے الفاظ اور گرائمر لیتی ہے۔ اس کے ماخذ درج ذیل ہیں:۔۔
-
:ہند-آریائی زبانوں کا اثر
اردو کی بنیادی گرامر اور ساخت ہند-آریائی زبانوں سے لی گئی ہے۔ذیل میں چند زبانوں کاذکرکیاجارہاہے۔
:سنسکرت
سنسکرت سے نکلنے والی پراکرت اور اپبھرنش نے اردو کی گرائمر اور بنیادی الفاظ فراہم کئے۔ مثال کے طور پر، “گھر”، “پانی”، “دن” جیسے الفاظ سنسکرت سے نکلے ہیں۔
:خڑی بولی
یہ مغربی ہندی کی ایک بولی ہے، جو دہلی اور اس کے اطراف میں بولی جاتی تھی۔ خڑی بولی نے اردو کی بنیادی لسانی ساخت دی، ان میں فعل کے صیغے اور جملہ سازی اہم ہیں۔
-
:فارسی اور عربی اثرات
اردو پر فارسی اور عربی کا گہرا اثر ہے، جو مسلم فتوحات اور مغل دور کے نتیجے میں شامل ہوئے۔
:فارسی
فارسی سے اردو نے نہ صرف الفاظ بلکہ شاعری، نثر اور ادبی انداز بھی مستعار لئے۔ مثال کے طور پر، “دل”، “جهان”، “عشق”، “خاموش” جیسے الفاظ فارسی سے آئے۔ فارسی رسم الخط (نستعلیق) بھی اردو کا حصہ بنا۔
:عربی
عربی الفاظ زیادہ تر مذہبی، علمی اور قانونی اصطلاحات کی شکل میں شامل ہوئے، جیسے “قانون”، “علم”، “نماز”، “حق”۔ قرآن اور حدیث کی وجہ سے عربی الفاظ کااستعمال بڑھتا چلاگیا۔
-
:ترکی اور دیگر وسطی ایشیائی زبانوں کے اثرات
ترکی زبان سے کچھ الفاظ اردو میں شامل ہوئے، خاص طور پر فوجی اور انتظامی اصطلاحات، جیسے “توپ”، “لشکر”، “چغل”۔ اردو زبان پر وسطی ایشیائی زبانوں کا اثر محدود ہے تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں ان زبانوں کا استعمال نہیں کی جاتا۔
-
:مقامی ہندوستانی زبانوں کے اثرات
اردو نے برصغیر کی دیگر زبانوں، جیسے پنجابی، سندھی، مراٹھی اور تیلگو سے بھی کچھ الفاظ مستعار لئے ہیں۔ خاص طور پر دکنی اردو میں مراٹھی اور تیلگو کے اثرات نمایاں ہیں۔ مثال کے طور پر، “بیک” (بیک وقت) جیسے الفاظ مراٹھی سے آئے۔
-
:انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں کا اثر
برطانوی راج کے دوران انگریزی الفاظ اردو میں شامل ہوئے، جیسے “ریلوے”، “اسکول”، “ٹکٹ”۔ جدید دور میں انگریزی کا اثر مزید بڑھا، خاص طور پر ٹیکنالوجی اور سائنس کے شعبوں میں۔ پرتگالی اور فرانسیسی جیسے یورپی الفاظ بھی محدود تعداد میں شامل ہوئے، جیسے “الماری” پرتگالی زبان کا لفظ ہے۔
:لسانی امتزاج کی خصوصیات
:الفاظ کا تنوع
اردو کے تقریباً 60 سے 70فیصددالفاظ ہند-آریائی ہیں، جبکہ 25سے30فیصد فارسی، عربی اور ترکی سے آئے ہیں۔ باقی 5 سے10فیصد الفاظ دیگر زبانوں سے لئے گئےہیں۔
:اردو گرائمر
اردو کی گرائمر ہند-آریائی ہے، لیکن اس میں فارسی کے اثرات بھی ہیں، جیسے “اضافت” (مثال: کتابِ علم)۔
:اردو رسم الخط
اردو کا نستعلیق رسم الخط فارسی سے ماخوذ ہے، جو اسے ہندی سے ممتاز کرتا ہے۔
اردو ایک ایسی زبان ہے جو صدیوں کے لسانی، ثقافتی اور تاریخی امتزاج کا نتیجہ ہے۔ اس کی جڑیں ہند-آریائی زبانوں، خاص طور پر خڑی بولی، میں ہیں، لیکن اس نے فارسی، عربی، ترکی اور دیگر زبانوں سے گہرے اثرات قبول کئے ہیں۔ اس کا ارتقا ہندوستان کی گنگا-جمنی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے، جو مختلف ثقافتوں کے ملاپ سے وجود میں آیا۔ آج اردو ایک عالمی زبان ہے، جو ادب، شاعری، صحافت اور ڈیجیٹل میڈیا میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔
Discover more from The First Info
Subscribe to get the latest posts sent to your email.