ایشیاء کرکٹ کپ: سری لنکن  ٹیم چھٹی مرتبہ  چیمپئن بن گئی

ایشیاء کرکٹ کپ: سری لنکن  ٹیم چھٹی مرتبہ  چیمپئن بن گئی

ایشیاء کرکٹ کپ کا فائنل25ہزار کرکٹ کے دیوانوں کی موجودگی میں متحدہ عرب امارات کے دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلا ۔پاکستان اور سری لنکاکے درمیان  برقی قمقموں کی روشنی میں فل پیک اسٹیڈیم میں کھیلا جانے والا میچ تقریباً یکطرفہ ثابت ہوا۔جہاں سری لنکا نے کھیل کے تینوں شعبوں میں پاکستان پر برتری قائم رکھی اور ایک نوجوان ٹیم نے پاکستان کی ان فارم ٹیم کو 23 رنز سے شکست دے  کر ایک بار پھر ایشیاء کی چیمپئن  ٹھہری۔ سری لنکا نے مجموعی طور پر چھٹی مرتبہ ٹائٹل جیتاہے۔  بھارت سات مرتبہ ایشیاء کپ جیت  کراس دوڑ میں  سرفہرست ہے۔ پاکستان نے اب تک دو مرتبہ یہ ٹائٹل اپنے نام کیا ہے۔ سری لنکا کی ٹیم 2014،2008،2004،1997،1986اور2022 میں ایشیاء کپ جیتاہے۔

سری لنکن ٹیم ایشیاء کپ جیتنے کے بعد خوشی کا اظہار کررہی ہے

ایشین کر کٹ کونسل کے تحت  مجموعی طور پر یہ پندرہواں ٹورنامنٹ کھیلا گیا جس میں   چھ ٹیموں نے حصہ لیا۔ ہانگ کانگ اور بنگلہ دیش کی ٹیمیں  سپر فور مرحلے کیلئے بھی کوالیفائی نہ کرسکیں، جبکہ بھارت اور افغانستان  کی ٹیمیں سپر فور سے آگے نہ بڑھ سکیں اور یوں دولاکھ انعامی رقم والے ایونٹ کے فائنل میں پاکستان اور سری لنکا کی ٹیمیں میدان میں اتریں۔ پاکستانی شائقین   پُر امید تھے کہ جس طرح بھارت کے خلاف سپر فور مرحلے میں ٹیم نے پرفارم  کیا تھا اسی طرح سری لنکا کی ناتجربہ کار اور نئی ٹیم کو دباؤ میں لا کر کامیابی سمیٹ لیں گے تاہم ایسا نہ ہو سکا ۔

سری لنکن کپتان ٹرافی کے ہمراہ

پاکستان کے کپتان بابر اعظم نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کے بجائے باؤلنگ کو ترجیح دی ۔سری لنکا کے ابتدائی بلے باز پراعتماد انداز میں بیٹنگ نہ کر سکے اور یکے    بعد دیگرے  پویلین  لوٹ گئے۔وکٹ کیپر بیٹر’’کشال  مینڈس‘‘افتتاحی اوور کی تیسری بال پر نسیم شاہ کا شکار بنے۔ وہ اپنا کھاتہ بھی نہ کھول سکے۔ چوتھے اوور میں تئیس کے مجموعی سکور حارث رؤف نے’’پاتھم نسانکا‘‘ کو چلتا کیا، وہ صرف آٹھ رنز بناسکے۔ نو اوورز تک پاکستان میچ پر پوری طرح سے حاوی تھا۔58 کے مجموعی سکور پر سری لنکا کے پانچ مستند بیٹرزپویلین میں سکون سے بیٹھے تھے۔  وکٹ کے ایک جانب اِن فارم بلے باز’’ بھانوکا۔راجاپاکسے‘‘ پراعتماد انداز میں حالات کا جائزہ لے رہا تھا اور  باؤلرز پر قابو پانے کی حکمت عملی بنا رہا تھا۔ایسی صورت حال میں ٹیم کو سنبھالنا اور ایک  بڑا ٹارگٹ سیٹ کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ تاہم انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور باؤلرز کی کمزور بالز  پر  دل کھول کر شاٹس کھیلے۔ سری لنکن آل راؤنڈر’’حسا۔رنگا ڈی سلوا‘‘ نے ’’ راجاپاکسے‘‘  کا خوب ساتھ دیا اور دونوں نے وکٹ کے چاروں جانب  انتہائی خوبصورت سٹروکس کھیلے۔ اس دوران پاکستان کے باؤلرز اور فیلڈرز بے بس دکھائی دیئے۔ پاکستانہ فیلڈرز نے ماضی کی روایت کو برقرار کھتے  ہوئے  کئی یقینی  آسان کیچ ڈراپ کئے۔ پاکستان کے ٹاپ فیلڈر شاداب خان  نے بھی انتہائی آسان کیچ ڈراپ کئے۔ بار بار باؤلنگ تبدیل کرنے کا حربہ بھی ناکام رہا اور دونوں بیٹرز نے محض 36 گیندوں پر58 رنز بٹورے۔ جس میں ’’حسا۔رنگا ڈی سلوا‘‘ نے 21 گیندوں پر 36 رنز کی برق رفتار اننگز کھیلی۔ اس میں ان کے 5 چوکے اور ایک زور دار چھکا بھی شامل تھا۔ ’’حسا۔رنگا ‘‘ ایک تیز شات کھیلنے کے چکر میں 15ویں اوور میں  آؤٹ ہوگیا، اس وقت سری لنکا کا مجموعی سکور 116 تھا۔’’ راجاپاکسے‘‘ کا بیٹ مسلسل رنز اُگل رہا تھا۔انہوں نے  ساتویں وکٹ کی شراکت میں ’’چمیکا۔کارونا رتنے ‘‘ کے ساتھ ملکر آخری پانچ اوورز  میں54 قیمتی رنز بنائے جنہوں نے سری لنکا کی جیت اور پاکستان کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔’’ راجاپاکسے‘‘ نے  صرف پینتالیس گیندوں پر 71 اکہتر رنز بنائے اور آؤٹ نہیں ہوئے۔ ان کی اننگز میں  تین  بلندوبالا چھکے اور چھ زور دار چوکے شامل تھے۔   سری لنکا  نے 20 اوورز کے اختتام پر 170 رنز بنائے ۔ سری لنکا کی بیٹنگ کی اہم وجہ  یہ تھی  کہ وکٹیں  گرنے کے باوجود نہ تو ان کی  فی اوور  رنز بنانے کی اوسط   میں کمی  آئی اور نہ ہی انہوں نے اپنا سٹرائیک ریٹ کم ہونے دیا۔

پاکستان کی جانب سے  حارث رؤف نے  چار اوورز میں 29 رنز کے عوض تین کھلاڑیوں  کو آؤٹ کیا۔ نسیم شاہ اور محمد حسنین کچھ نمایاں کارکردگی نہ دکھاسکے۔ دونوں نے بالترتیب  40اور 41 رنز دیئے۔

پاکستان نے جن بیٹنگ شروع کی تو پہلے کچھ میچوں کی طرح اس بار بھی ان کا آغاز انتہائی  مایوس کن تھا اور آؤٹ آف فارم کپتان بابر اعظم اس بار بھی کوئی بڑا سکور کرنے میں ناکام رہے اورچوتھے اوورومیں 22کے مجموعی سکور پر پانچ رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ ٹورنامنٹ میں مسلسل ناکام رہنے اور پاکستان کی بیٹنگ کو   مشکلات سے دوچار کرنے والے فخر زمان  عوام کی فخریہ پیشکش کے باوجود اس بار بھی کوئی تیر نہ چلا سکے اور صرف ایک گیند کے مہمان بنے۔ فخر زمان کے صفر پر آؤٹ ہونے کے بعد  اِن فارم بلے باز محمد رضوان اور افتخار احمد نے ذمہ دارانہ اننگز ضرور کھیلی مگر وہ کسی بھی صورت حالات کے مطابق نہ تھی۔ دونوں کے درمیان 59 گیندوں  پر 71 رنز کی شراکت ہوئی۔ افتخاراحمد 31 گیندوں پر 32 رنز بناکر آؤٹ ہوگئے۔

سری لنکن متبادل فیلڈر ’’بندارا‘‘ نےافتخار احمدکا باؤنڈری  پرایک انتہائی مشکل کیچ تھاما۔ محمد رضوان بھی زیادہ دیر مزاحمت نہ کرسکے ۔بڑھتے ہوئے رن ریٹ  اور پت جھڑمیں پتوں کی طرح گرتی وکٹیں دیکھ کرمحمد رضوان بھی ایک سلو بال پر اونچا شاٹ کھیل کر اپنی وکٹ گنوا بیٹھے۔ وہ پچپن رنز بناسکے۔ گرین شرٹس کے 11 میں سے صرف 3 بلے باز ڈبل فگر میں جاسکےاور  پوری ٹیم آخری اوور کی فائنل بال پر 147 رنز بناکر سکی۔ سری لنکا کی جانب سے ’’مدوشان۔لیاناگماگے‘‘ نے چار اور’’حسا۔رنگا‘‘ نے  تین اہم کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔  ’’ راجاپاکسے‘‘کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیاگیا جبکہ ’’ حسا۔رنگا ڈی سلور‘‘ ایشیاء کپ 2022 ایڈیشن کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ انہوں نے اپنی باؤلنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ سے شائقین کرکٹ کو خوب محظوظ کیا۔

سری لنکا کی نسبتاً کمزور اور کم  تجربہ کار ٹیم نے پورے ٹورنامنٹ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ انہوں نے کھیل کے تینوں شعبوں بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ میں اپنے حریفوں  پر سبقت حاصل کی اور  متحد ہوکر یہ ثابت کر دیا کہ  تجربہ تھوڑا بھی ہوتو محنت اسے چار چاند لگادیتی ہے۔

Leave a comment