مغلیہ دور میں اردو کا فروغ
تحریر:عمرفاروق
:مغلیہ دور میں اردو کا فروغ
مغلیہ خاندان برصغیر پاک و ہند پر 1526ء سے 1857ء تک برسراقتدار رہے ۔مغلیہ خاندان برصغیر پاک و ہند پر 331 سال تک برسراقتدار رہا۔ یہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کا ایک سنہرا دور تھا جس نے نہ صرف سیاسی اور معاشی استحکام دیا بلکہ ثقافت، ادب، اور زبانوں کے فروغ میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ مغلیہ دور میں اردو زبان نے ایک منفرد شناخت اختیار کتے ہوئے عوامی سطح سے شاہی دربار تک مقبولیت حاصل کی۔ یہ زبان فارسی، عربی، ترکی،سنسکرت اور ہندوستان کی دیگرمقامی زبانوں کے امتزاج سے تشکیل پائی، جو مغل تہذیب کی بین الثقافتی روایت کی عکاس تھی۔
:تاریخی پس منظر اور اردو کی ترقی
مغل بادشاہوں نے ابتدائی طور پر فارسی کو سرکاری زبان کی حیثیت دی، لیکن فوجی، تجارتی، اور روزمرہ زندگی میں مقامی بولیاں (جیسے ہندوی، برج بھاشا، اور دکنی) بھی رائج تھیں۔ مغل فوجی چھاؤنیوں میں مختلف علاقوں کے سپاہیوں اور تاجروں کے درمیان رابطے کی زبان کے طور پر ایک نئی “لشکری زبان” وجود میں آئی، جو بعد میں “اردو” کہلائی۔ یہ زبان فارسی کی شائستگی اور مقامی زبانوں کی سادگی کا حسین امتزاج تھی۔
:مغلیہ دربار اور اردو کی سرپرستی
مغل شہنشاہوں کی سرکاری زبان فارسی ہونے کے باوجود اردو کو بھی خاصی پذیرائی ملی۔ مغل بادشاہوں، خاص طور پر اکبر، جہانگیر، اور شاہ جہاں کے دور میں، فنون لطیفہ کو فروغ ملا۔ اگرچہ فارسی غالب رہی، تاہم مقامی زبانوں کی سرپرستی نے اردو کے لئے زمین ہموار کی۔ بہادر شاہ ظفر خود اردو شاعر تھے اور انہوں نے اردو ادب کو فروغ دیا۔
:اکبر اعظم کے دورمیں اردو کا فروغ
شہنشاہ اکبر کے دور (1556–1605ء) میں جہاں فارسی پر توجہ دی گئی وہاں دوسری مقامی زبانوں کو بھی فروغ ملا۔ “فارسی-ہندوی” امتزاج نے بہت شہرت حاصل کی اور اس نے مقامی سطح پر اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔ اس دور میں عبدالقادر بیدل،جیسے شاعر وں اور ادیبوں نے فارسی کے ساتھ ساتھ مقامی زبانوں میں بھی تخلیقات پیش کیں۔
:شاہجہاں اور اورنگزیب عالمگیر کے دورمیں اردو کا فروغ
شاہجہاں (1628–1658ء) اور اورنگزیب عالمگیر (1658–1707ء) کے دور اقتدار میں ں اردو نےخوب ترقی کی۔اس دور میں دکنی خطے (گولکنڈہ اور بیجاپور) میں بھی اردو زبان کو خوب شہرت ملی۔ دکنی اردو کے مشہور شعراء جیسے ولی دکنی نے اس زبان کو ادبی وقار بخشا۔
:بہادر شاہ ظفر کے دور میں اردو زبان کا فروغ
مغل دور کے آخر میں، خاص طور پر 17ویں اور 18ویں صدی میں، اردو شاعری نے عروج پایا۔بہادر شاہ ظفر مغلیہ خاندان کے آخری بادشاہ تھے۔ وہ خود اردو زبان کے شاعر تھے۔انہوں نے اردو زبان کو دربار میں نمایاں مقام دیا۔ ولی دکنی (1667-1707) کو اردو کا پہلا بڑا شاعر مانا جاتا ہے، جنہوں نے دکنی اردو میں غزلیں لکھیں۔ اس کے بعد دہلی اور لکھنؤ میں اردو شاعری کے کئی مراکز قائم ہوئے، جہاں میر تقی میر، غالب، اور ذوق جیسے بڑے شاعروں نے اردو زبان کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
:ثقافتی امتزاج اور ادبی خدمات
مغلیہ دور کی سب سے بڑی خوبی “گنگا جمنی تہذیب” کا فروغ تھا، جہاں ہندو اور مسلمان ثقافتی عناصر باہم مدغم ہوئے۔ اردو نے اس امتزاج کو زبان کے ذریعے پیش کیا۔
:اردو نثر کی ترقی
18ویں صدی کے آخر اور 19ویں صدی کے آغاز میں اردو نثر کوفروغ ملا۔ “داستان” اور “قصص” جیسے ادبی اصناف مقبول ہوئے۔ مرزا غالب کے خطوط نے بھی اردو نثر کو بام عروج پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
:علمی و ثقافتی مراکز
دہلی اور لکھنؤ اردو کے اہم مراکز بنے۔ دہلی اسکول آف پوئٹری اور لکھنؤ اسکول نے اردو شاعری کو مختلف انداز دیے۔ مشاعرے، جو اس دور میں عام تھے۔ مشاعروں نے ذریعے اردو کی ترویج میں نمایاں کردار اداکیا۔ داستان گوئی (جیسے “داستانِ امیر حمزہ” ) نے اردو کو عوامی دلچسپی کا مرکز بنایا۔
:مذہبی و سماجی اثرات
صوفی شعراء نے اردو کو مذہبی اور روحانی موضوعات کے لئے استعمال کیا، جس سے اس کی مقبولیت عام لوگوں میں بڑھنے لگی۔ صوفی بزرگوں، جیسے خواجہ معین الدین چشتی اور نظام الدین اولیاء، نے اردو کو عوامی تبلیغ کا ذریعہ بنایا۔ اس کے علاوہ، اردو نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک مشترکہ لسانی پل کا بھی کردار ادا کیا۔
:لسانی تبدیلیاں اور معیاری شکل
اٹھارہویں صدی تک اردو نے اپنی معیاری شکل اختیار کر لی۔ دہلی اور لکھنؤ اردو زبان کے ادبی مرکز بنے۔ میر تقی میر، مرزا غالب، اور مومن خان مومن جیسے شعرا ءنے اردو غزل کو عروج بخشا۔ فارسی کی بجائے اردو میں تاریخ نگاری (جیسے “فتح نامہ” اور “تزکِ جہانگیری”) بھی شروع ہوئی۔
:مغلیہ زوال اور اردو کا تسلسل
اٹھارہ سو ستاون کی جنگِ آزادی کے بعد مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا، لیکن اردو اپنی شناخت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ برطانوی دور میں بھی یہ تعلیم اور انتظامیہ کا حصہ بنی، جس کی بنیاد مغلیہ عہد کی ثقافتی میراث تھی۔
مغل دور میں اردو نے ابتدائی شکل سے لے کر ایک مکمل ادبی زبان تک کا سفر طے کیا۔ مغلیہ دور میں اردو کا فروغ صرف ایک زبانی ارتقا نہیں تھا، بلکہ یہ برصغیر کی مشترکہ تہذیبی روح کی علامت تھا۔ آج بھی اردو اپنے الفاظ، محاوروں، اور شاعری میں مغل تہذیب کی جھلک پیش کرتی ہے۔ یہ زبان نہ صرف ماضی کی داستان سناتی ہے بلکہ موجودہ دور میں ثقافتی ہم آہنگی کی بھی ترجمان ہے ۔مغل دربار کی سرپرستی، شعرا کی کاوشوں، اور ثقافتی مراکز کے قیام نے اردو کو ہندوستان کی ایک اہم زبان بنا دیا، جو آگے چل کر جدید دور میں مزید ترقی کرتی رہی ہے اور یہ سفر جاری ہے۔
Discover more from The First Info
Subscribe to get the latest posts sent to your email.