آئینہ اپنی نظر سے نہ جدا ہونے دو
آئینہ اپنی نظر سے نہ جدا ہونے دو
کوئی دم اور بھی آپس میں ذرا ہونے دو
کم نگاہی میں اشارہ ہے اشارے میں حیا
یا نہ ہونے دو مجھے چین سے یا ہونے دو
تم دل آزار بنے رشک مسیحا کیسے؟؟
کم نہ ہونے دو مرا درد سوا ہونے دو
کیا نہ آئے گا سے خوف مرے قتل کے بعد
دست قاتل کو ذرا دست دعا ہونے دو
جب سنا داغ کوئی دم میں فنا ہوتا ہے
اس ستمگر نے اشارے سے کہا ہونے دو
داغؔ دہلوی

:شاعر کا مختصر تعارف
داغؔ دہلوی اردو کے ممتاز اور مقبول شاعر تھے، خاص طور پر غزل کے میدان میں ان کا بڑا نام ہے۔ان کا اصل نام نواب مرزا خاں اور داغؔ تخلص تھا۔ داغ دہلوی اردو غزل کے وہ قادرالکلام شاعر ہیں جنہوں نے عشق، ناز، ادا، حیا اور عاشقانہ نفسیات کو نہایت سلیس، رواں اور دل نشیں انداز میں پیش کیا۔ ان کی شاعری میں زبان کی صفائی، جذبات کی شدت اور محبوب سے شکوہ شکایت کا حسین امتزاج ملتا ہے۔
داغؔ کے مشہور مجموعوں میں گلزارِ داغؔ ،آفتابِ داغؔ اورمہتابِ داغؔ شامل ہیں۔
:پہلا شعر
آئینہ اپنی نظر سے نہ جدا ہونے دو
کوئی دم اور بھی آپس میں ذرا ہونے دو
:مفہوم
شاعر محبوب سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اپنی نظر کو عاشق سے جدا نہ کرے اور تھوڑی دیر مزید یہ قرب باقی رہنے دے۔
:مشکل الفاظ کے معنی
آئینہ : محبوب کا چہرہ
دم : لمحہ، تھوڑی دیر
ذرا : معمولی سا، تھوڑا
:تشریح
داغ دہلوی کے ہاں عشق میں نظر کی بڑی اہمیت ہے۔ یہاں شاعر محبوب کے چہرے کو آئینہ قرار دے کر اس کی دلکشی اور روشن جمال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی نظر ہی عاشق کی زندگی کا سہارا ہے، اگر یہ نظر ہٹ گئی تو عاشق کا وجود بے معنی ہو جائے گا۔ غور کیا جائے تو یہ شعر عاشق کی شدید وابستگی اور محبوب کی بے نیازی کو نمایاں کرتا ہے۔ شاعر چاہتا ہے کہ محبوب اور عاشق کے درمیان جو قربت اس لمحے موجود ہے وہ کچھ دیر اور قائم رہے۔ درحقیقت یہ درخواست وقت کو تھام لینے کی آرزو ہے کیونکہ عاشق جانتا ہے کہ یہ لمحے عارضی ہیں مگر انہی میں عشق کی ساری لذت پوشیدہ ہے۔
:حوالہ کا شعر
نظر سے دور نہ جانا صنم کہ دم بھر میں
دلِ خراب کا عالم خراب ہو جائے
میر تقی میر
—
:دوسرا شعر
کم نگاہی میں اشارہ ہے اشارے میں حیا
یا نہ ہونے دو مجھے چین سے یا ہونے دو
:مفہوم
محبوب کی جھکی ہوئی نگاہ اور اشاروں میں حیا ہے، مگر یہ کیفیت عاشق کو بے چین رکھتی ہے، اس لیے شاعر فیصلہ چاہتا ہے۔
:مشکل الفاظ کے معنی
کم نگاہی : نظر جھکا لینا
اشارہ : کنایہ، علامت
حیا : شرم، نزاکت
چین : سکون
:تشریح
اس شعر میں داغ دہلوی محبوب کی ادا اور حیا کا نقشہ کھینچتے ہیں۔ محبوب براہ راست کچھ نہیں کہتا بلکہ کم نگاہی اور اشاروں سے بات کرتا ہے۔ یہ انداز اگرچہ حسین اور باوقار ہے مگر عاشق کے لئے عذاب بن جاتا ہے۔ شاعر کی بے قراری یہاں اپنے عروج پر ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ نیم رضامندی اور نیم بے رخی مجھے اندر سے توڑ رہی ہے۔ یا تو مجھے مکمل سکون عطا کر دو یا پھر صاف انکار کر کے اس کشمکش سے آزاد کر دو۔ درحقیقت یہ شعر عشق کی اس کیفیت کو بیان کرتا ہے جہاں غیر یقینی صورت حال عاشق کے لئے سب سے بڑا دکھ بن جاتی ہے۔
:حوالہ کا شعر
نہ لطفِ وصل ملا نہ غمِ فراق ملا
عجب مقام پہ لا کر کھڑا کیا تو نے
فراق گورکھپوری
—
:تیسرا شعر
تم دل آزار بنے رشک مسیحا کیسے؟
کم نہ ہونے دو مرا درد سوا ہونے دو
:مفہوم
:اگر محبوب دل دکھانے والا ہے تو وہ مسیحا کیسے کہلا سکتا ہے، شاعر اپنے درد کو کم کرنے کے بجائے بڑھنے دینے کی بات کرتا ہے۔
:مشکل الفاظ کے معنی
دل آزار : دل دکھانے والا
رشک : حسد
مسیحا : شفا دینے والا
سوا : زیادہ
:تشریح
یہ شعر داغ دہلوی کے عاشقانہ فلسفے کی بہترین مثال ہے۔ شاعر محبوب سے سوال کرتا ہے کہ اگر تم دل کو زخمی کرنے والے ہو تو پھر مسیحا کہلانے کے لائق کیسے ہو سکتے ہو۔ مگر اسی کے ساتھ شاعر اپنے درد سے عجیب محبت کا اظہار بھی کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میرے درد کو کم نہ کیا جائے بلکہ بڑھنے دیا جائے کیونکہ یہی درد میرے عشق کی پہچان ہے۔ یہاں درد زندگی اور عشق کا استعارہ بن جاتا ہے۔ داغ کے نزدیک درد کا خاتمہ عشق کا خاتمہ ہے، اس لیے وہ اس درد کو سینے سے لگائے رکھنا چاہتا ہے۔
:حوالہ کا شعر
درد ہی سہی میرے سینے میں رہے
چین ہو جائے تو مر جاتا ہوں
جگر مرادآبادی
—
:چوتھا شعر
کیا نہ آئے گا سے خوف مرے قتل کے بعد
دست قاتل کو ذرا دست دعا ہونے دو
:مفہوم
شاعر محبوب سے کہتا ہے کہ میرے قتل کے بعد کہیں تمہیں خوف نہ ہو، اس لیے قاتل کے ہاتھ کو دعا کے ہاتھ میں بدل دو۔
:مشکل الفاظ کے معنی
خوف : ڈر
قتل : ہلاک کرنا
دست : ہاتھ
دعا : التجا
:تشریح
اس شعر میں عشق کی انتہا دکھائی دیتی ہے۔ شاعر محبوب کو قاتل کہتا ہے مگر اس پر الزام نہیں دھرتا۔ وہ کہتا ہے کہ میرے مرنے کے بعد کہیں تمہیں خوف یا پشیمانی نہ ہو، اس لیے ابھی اپنے ہاتھ کو دعا کے لیے اٹھا لو۔ یہ عاشق کی بے مثال قربانی اور محبوب کے لیے نرم گوشے کا اظہار ہے۔ یہاں قاتل اور دعا کا تضاد عشق کی شدت کو مزید نمایاں کرتا ہے۔ شاعر اپنی جان کی پروا نہیں کرتا بلکہ محبوب کے سکون کو مقدم رکھتا ہے۔
:حوالہ کا شعر
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
میر تقی میر
—
:(پانچواں شعر، (مقطع
جب سنا داغ کوئی دم میں فنا ہوتا ہے
اس ستمگر نے اشارے سے کہا ہونے دو
:مفہوم
جب محبوب نے سنا کہ داغ لمحوں میں فنا ہو سکتا ہے تو اس نے بے رحمی سے اشارے میں اجازت دے دی۔
:مشکل الفاظ کے معنی
دم : لمحہ
فنا : ختم ہو جانا
ستمگر : ظلم کرنے والا
:تشریح
مقطع میں داغ دہلوی نے اپنے تخلص کو نہایت مؤثر انداز میں استعمال کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جب محبوب کو معلوم ہوا کہ داغ چند لمحوں میں فنا ہو سکتا ہے تو اس نے ذرا بھی پروا نہ کی اور اشارے سے اجازت دے دی۔ یہاں محبوب کی بے حسی اور عاشق کی بے بسی پوری شدت سے سامنے آتی ہے۔ داغ کی شاعری کا یہ خاص وصف ہے کہ وہ اپنی ذات کو عشق کی بھٹی میں جھونک کر محبوب کی بے نیازی کو اور زیادہ نمایاں کر دیتے ہیں۔ یہ شعر غزل کو درد، طنز اور عاشقانہ شکستگی کے ساتھ اختتام تک پہنچاتا ہے۔
:حوالہ کا شعر
کہا جو ہم نے کہ مر جائیں گے تم پر
وہ مسکرا کے بولے ارادہ اچھا ہے
داغ دہلوی
Discover more from The First Info
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.