مصیبت بھی راحت فزا ہو گئی ہے
تیری آرزو رہنما ہو گئی ہے
:شاعر کا تعارف
رئیس المتغزلین، مرزا حسرت موہانی، جن کی شاعری میں تغزل اور فکری گہرائی کا حسین امتزاج ملتا ہے، اپنی عشق حقیقی اور عشق مجازی کی پاکیزگی کے لیے مشہور ہیں۔
:پہلا شعر
مصیبت بھی راحت فزا ہو گئی ہے
تیری آرزو رہنما ہو گئی ہے
:مفہوم
جب سے معشوق کے حصول کی خواہش دل میں جاگی ہے، ہر طرح کی پریشانی اور دکھ بھی سکون اور خوشی کا باعث بن گیا ہے، کیونکہ یہ آرزو ہی زندگی میں رہنمائی کر رہی ہے۔
:مشکل الفاظ کے معنی
* مصیبت : دکھ، پریشانی، مشکل
* راحت فزا : آرام پہنچانے والی، سکون دینے والی
* آرزو : خواہش، تمنا
* رہنما : راستہ دکھانے والا، قائد
:تشریح
مرزا حسرت موہانی اس شعر میں عشق کے کمال اور اس کی پاکیزہ طاقت کا بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حقیقی عشق کا یہ عالم ہے کہ اب کوئی بھی تکلیف یا پریشانی تکلیف نہیں دیتی۔ جب سے محبوب کو پانے کی شدید خواہش نے دل میں جگہ بنائی ہے، تب سے زندگی کا ہر دکھ، ہر غم ایک روحانی سکون کا ذریعہ بن گیا ہے۔ مزید برآں، یہ آرزو محض ایک خواہش نہیں رہی، بلکہ یہ میرے لیے ایک مشعلِ راہ بن چکی ہے۔ شاعر کا اشارہ ہے کہ عشق کی لگن نے زندگی کو ایک مقصد دے دیا ہے، اور اس مقصد کی جانب بڑھنے کے دوران آنے والی ہر رکاوٹ، ہر مصیبت خوشگوار لگتی ہے کیونکہ وہ منزل کی طرف ایک قدم ہوتی ہے۔ درحقیقت، یہاں مصیبتوں کو خوشی میں بدلنے کی تشبیہ، عشق کے جذبے کی شدت کو نمایاں کرتی ہے۔
:فنی نکات
* حسنِ تعلیل: مصیبت کے راحت فزا ہونے کی ایک نئی اور شاعرانہ وجہ بیان کی گئی ہے۔
* ردیف: اس غزل میں ‘ہو گئی ہے’ ردیف ہے۔
* قوافی: فزا، رہنما (وغیرہ) اس غزل کے قوافی ہیں۔
:دوسرا شعر
یہ وہ راستہ ہے دیار وفا کا
جہاں باد صر صر صبا ہو گئی ہے
:مفہوم
عشق اور وفا کی دنیا کا یہ عجیب راستہ ہے کہ یہاں آندھی اور سخت گرم ہوا بھی صبح کی ٹھنڈی، خوشگوار ہوا میں بدل گئی ہے۔
:مشکل الفاظ کے معنی
* دیار وفا : وفا کا علاقہ، عشق کی دنیا
* باد صر صر : سخت اور تند و تیز ہوا، آندھی
* صبا : صبح کی ٹھنڈی اور نرم ہوا، خوشگوار ہوا۔
:تشریح
شاعر عشق کے راستے کو عام دنیاوی راستوں سے مختلف قرار دیتے ہیں۔ وہ اس راہ کو ‘دیار وفا’ یعنی سچے اور پختہ عشق کا میدان کہتے ہیں۔ یہاں کا ماحول اور قوانین بالکل انوکھے ہیں۔ گَور کیا جائے تو اس راہ میں آنے والی تمام سختیاں اور مصیبتیں، جنہیں شاعر نے ‘باد صر صر’ سے تشبیہ دی ہے، اب خوشگوار لگنے لگی ہیں۔ شاعر کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جب عاشق کے دل میں سچا جذبہ اور وفاداری ہو تو وہ ہر طرح کی سختی کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے، بلکہ یہ سختیاں بھی اس کے لیے راحت کا سامان بن جاتی ہیں۔ اس کے لیے آندھیاں بھی صبا کی نرم جھونکوں جیسی محسوس ہوتی ہیں۔ اس شعر میں عشق کی کرشمہ سازیوں اور عاشق کے صبر کی انتہا کو بیان کیا گیا ہے۔
:فنی نکات
* صنعتِ تضاد: ‘باد صر صر’ (آندھی) اور ‘صبا’ (نرم ہوا) کا استعمال صنعتِ تضاد کی ایک عمدہ مثال ہے۔
* استعارہ: ‘باد صر صر’ مصیبتوں اور سختیوں کے لیے استعارہ ہے۔
:تیسرا شعر
میں درماندہ اس بارگاہ عطا کا
گنہگار ہوں ایک خطا ہو گئی ہے
:مفہوم
میں اس فیض اور بخشش کے دربار کا ایک عاجز و درماندہ سائل ہوں اور (اپنے محبوب یا خدا کے حضور) مجھ سے کوئی خطا یا گناہ سرزد ہو گیا ہے۔
:مشکل الفاظ کے معنی
* درماندہ : تھکا ہارا، مجبور، عاجز، بے بس
* بارگاہ عطا : بخشش اور انعام دینے کا دربار
* گنہگار : خطا کار، مجرم
* خطا : غلطی، قصور
:تشریح
یہ شعر عاجزی، انکسار اور محبوب یا خدا کے حضور اپنی کمتری کا اعتراف ہے۔ شاعر خود کو اُس ذاتِ سخی کے دربار کا ایک درماندہ (بے بس اور تھکا ہارا) شخص قرار دیتے ہیں جو ہمیشہ عطا اور بخشش کرنے والی ہے۔ یہ محبوبِ مجازی بھی ہو سکتا ہے اور محبوبِ حقیقی (اللہ تعالیٰ) بھی۔ شاعر اپنے محبوب کے سامنے اپنی کسی غلطی یا کوتاہی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ شاعر کا اشارہ ہے کہ محبوب کی شان اتنی بلند ہے کہ عاشق سے نادانستہ طور پر بھی کوئی غلطی ہو جائے تو وہ اپنے آپ کو گنہگار اور قصوروار سمجھتا ہے۔ اس میں عشق کے سامنے اپنی انا کو ختم کرنے اور مکمل طور پر محبوب کے حوالے کر دینے کا جذبہ پوشیدہ ہے۔ یہ معافی کی طلب اور اعترافِ بندگی کا ایک خوبصورت انداز ہے۔
:فنی نکات
* حسنِ طلب: شاعر نے گنہگار کہہ کر عاجزی کے ساتھ محبوب کی توجہ اور عطا طلب کی ہے۔
* مناجات کا انداز: اس شعر میں کسی حد تک عجز و انکسار اور مناجات کا رنگ پایا جاتا ہے۔
:چوتھا شعر
تیرے رتبہ دان محبت کی حالت
تیرے شوق میں کیا سے کیا ہو گئی ہے
:مفہوم
تیرے عشق کی قدر و منزلت جاننے والے کی حالت، تیرے دیدار کے شوق میں بہت بدل گئی ہے اور وہ عام حالت میں نہیں رہا۔
:مشکل الفاظ کے معنی
* رتبہ دان : قدر و قیمت جاننے والا، مرتبہ پہچاننے والا
* شوق : خواہش، لگن، دیدار کی طلب
* کیا سے کیا ہو گئی ہے : بہت بدل گئی ہے، غیر معمولی ہو گئی ہے۔
:تشریح
شاعر اپنے محبوب کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ کوئی عام عاشق نہیں ہیں، بلکہ وہ ان کے عشق کی عظمت اور رتبے کو بخوبی جانتے ہیں۔ وہ خود کو ‘رتبہ دان محبت’ کہہ کر اپنے عشق کی پختگی اور سمجھ بوجھ کا دعویٰ کرتے ہیں۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی وہ اپنی دگرگوں حالت کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ شاعر کا اشارہ ہے کہ محبوب کے شدید شوق اور دیدار کی طلب میں عاشق کا جسمانی اور روحانی حال بالکل بدل چکا ہے۔ یہ تبدیلی عام زندگی سے بے نیازی، فقر اور درویشی کی طرف اشارہ کر سکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں، عشق کی آگ میں جل کر اور محبوب کے شوق میں ڈوب کر اس کی ہستی نے ایک نئی شکل اختیار کر لی ہے جو عام لوگوں سے مختلف ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عاشق کا عشق محض دعویٰ نہیں بلکہ اس کی حالت اس بات کی گواہ ہے۔
:فنی نکات
* محاورہ: ‘کیا سے کیا ہو جانا’ ایک خوبصورت محاورہ ہے جو بڑی تبدیلی کو بیان کرتا ہے۔
* تاثراتی انداز: شعر میں جذباتی کیفیت اور عاشق کی حالت کا گہرا تاثر ملتا ہے۔
:پانچواں شعر
پہنچ ہی جائیں گے انتہا کو بھی حسرت
جب اس راہ کی ابتدا ہو گئی ہے
:مفہوم
اے حسرت، جب ہم نے عشق کی اس مشکل راہ پر قدم رکھ دیا ہے (ابتدائی مراحل طے کر لیے ہیں) تو یقیناً ایک دن ہم اپنی منزل (انتہا) تک بھی پہنچ جائیں گے۔
:مشکل الفاظ کے معنی
* انتہا : آخری حد، منزل، مقصد
* ابتدا : آغاز، شروع، پہلا قدم
* حسرت : شاعر کا تخلص۔
:تشریح
یہ شعر شاعر مرزا حسرت موہانی کا مقطع ہے، جس میں تخلص استعمال ہوا ہے۔ یہ شعر خود اعتمادی، عزم اور امید کا پیامبر ہے۔ شاعر، خود سے مخاطب ہو کر یا اپنے تخلص کے ذریعے قاری کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ جب ہم نے عشق جیسی مشکل اور طویل راہ پر چلنا شروع کر دیا ہے، یعنی ابتدا کر دی ہے، تو یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہم اپنی منزل، یعنی ‘انتہا’ تک بھی ضرور پہنچیں گے۔ یہاں ‘انتہا’ سے مراد محبوب کا وصال، یا عشق حقیقی کی معراج ہو سکتی ہے۔ شاعر کا اشارہ ہے کہ کسی بھی بڑے مقصد کو حاصل کرنے کا سب سے مشکل مرحلہ اس کا آغاز ہوتا ہے۔ چونکہ ہم نے یہ مشکل ترین قدم اٹھا لیا ہے، لہٰذا اب کامیابی یقینی ہے۔ یہ شعر نہ صرف عاشق کی بلکہ ہر صاحبِ عزم انسان کی امید اور یقین کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔
:فنی نکات
* مقطع: یہ غزل کا آخری شعر ہے اور اس میں شاعر کا تخلص ‘حسرت’ استعمال ہوا ہے۔
* رجائیت پسندی: یہ شعر امید، یقین اور مثبت سوچ (رجائیت) کا درس دیتا ہے۔
* فنی طور پر، ‘انتہا’ اور ‘ابتدا’ کا ذکر کلام میں ایک خوبصورت ربط پیدا کرتا ہے۔
Discover more from The First Info
Subscribe to get the latest posts sent to your email.