یہ ہے مے کدہ یہاں رند ہیں، یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ ہے مے کدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسائی حرام ہے
جو ذرا سی پی کے بہک گیا اسے میکدے سے نکال دو
یہاں تنگ نظر کا گزر نہیں یہاں اہل ظرف کا کام ہے
کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے
مگر اس پہ کوئی کرے بھی کیا یہ تو میکدے کا نظام ہے
یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہان سے
جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے
اسی کائنات میں اے جگرؔ کوئی انقلاب اٹھے گا پھر
کہ بلند ہو کے بھی آدمی ابھی خواہشوں کا غلام ہے
شاعر کا نام: جگرؔ مراد آبادی
عزیز طلبہ، یہ غزل اردو شاعری کے “رئیس المتغزلین” جگر مراد آبادی کی شاہکار تخلیق ہے۔ آئیے، سب سے پہلے شاعر کا مختصر تعارف دیکھتے ہیں اور پھر ہر شعر کی تشریح کرتے ہیں۔
:شاعر کا مختصر تعارف
نام: علی سکندر
تخلص: جگر
خطاب: رئیس المتغزلین

جگرؔ مراد آبادی بیسویں صدی کے اردو غزل کے سب سے توانا اور رسیلے شاعر مانے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں حسن و عشق کی سرمستی، رندانہ بے باکی اور تصوف کی گہرائی یکجا نظر آتی ہے۔ ان کا کلام نغمگی اور موسیقیت سے بھرپور ہے، اور وہ انسانی جذبات کی سچی ترجمانی کے لیے مشہور ہیں۔ ان کے مجموعہ کلام “آتشِ گل” کو بہت شہرت ملی۔
شعر نمبر 1مطلع:
یہ ہے مے کدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسائی حرام ہے
:مفہوم
یہ عشق کی دنیا (مے کدہ) ہے جہاں عاشق بستے ہیں اور ان کا رہنما ساقی ہے، یہ کوئی عبادت گاہ نہیں جہاں تم اپنی نیکی اور پرہیزگاری کا غرور لے کر آؤ، یہاں تو اپنی پارسائی پر ناز کرنا بھی گناہ ہے۔
مشکل الفاظ کے معنی:
مے کدہ : شراب خانہ ، مراد: عشقِ حقیقی کی محفل یا عارفوں کی دنی
* رند : آزاد منش، ظاہر داری سے دور سچے عاشق
* امام : پیشوا، لیڈر
* حرم : مسجد، کعبہ، مقدس مقام
* پارسائی : پرہیزگاری، نیکی، تقویٰ
تشریح:
جگر مراد آبادی اس شعر میں عشق کے آداب اور ظاہر پرستوں (شیخ) کے فرق کو واضح کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اے ظاہر پرست انسان! تو جس جگہ (مے کدہ) آیا ہے، یہاں کے اصول تیری دنیا سے الگ ہیں۔ یہاں “رند” بستے ہیں جو عشق کی آگ میں جل کر خالص ہو چکے ہیں اور ان کا لیڈر کوئی روایتی مذہبی پیشوا نہیں بلکہ “ساقی” (مرشدِ کامل) ہے جو انہیں معرفت کا جام پلاتا ہے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر نے ایک انقلابی بات کی ہے کہ “یہاں پارسائی حرام ہے۔” بظاہر یہ جملہ عجیب لگتا ہے، مگر اس کا گہرا مطلب یہ ہے کہ عشق کے راستے میں “عاجزی” شرط ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی نیکی، نمازوں اور عبادتوں پر غرور کرے تو وہ عاشق نہیں ہو سکتا۔ مے کدہ (راہِ عشق) میں اپنی “میں” کو مٹانا پڑتا ہے۔ لہٰذا، پارسائی کا غرور یہاں سب سے بڑا گناہ تصور کیا جاتا ہے۔
حوالہ شعر:
؎ عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
مگر پہلو میں رکھتا ہوں، دلِ درد آشنا، دل کا
(جگر مراد آبادی)
فنی نکات:
* صنعتِ تضاد: ‘مے کدہ’ اور ‘حرم’، ‘رند’ اور ‘شیخ’ کے الفاظ میں تضاد ہے۔
* استعارہ: مے کدہ بطورِ استعارہ استعمال ہوا ہے (روحانیت یا عشق کی دنیا کے لیے)۔
شعر نمبر 2:
جو ذرا سی پی کے بہک گیا اسے میکدے سے نکال دو
یہاں تنگ نظر کا گزر نہیں یہاں اہل ظرف کا کام ہے
مفہوم:
جو شخص عشق یا معرفت کا تھوڑا سا درجہ پا کر اپنا توازن کھو بیٹھے، وہ ہماری محفل کے قابل نہیں۔ یہ راستہ کم ظرف لوگوں کے لیے نہیں بلکہ عالی ظرف اور حوصلہ مند لوگوں کے لئے ہے۔
مشکل الفاظ کے معنی:
* بہک جانا : نشے میں آپے سے باہر ہونا، غرور میں آنا
* تنگ نظر : کم ظرف، چھوٹی سوچ والا
* اہلِ ظرف : اعلیٰ حوصلے والے، جو بڑی بات کو ہضم کر سکیں
تشریح:
اس شعر میں جگر ؔنے عشق اور معرفت کے لیے “ظرف کی شرط لگائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شرابِ عشق (یا کوئی بھی بڑا رتبہ/طاقت) ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ کم ظرف لوگ ذرا سی کامیابی یا روحانی درجہ ملنے پر مغرور ہو جاتے ہیں یا توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ ایسے لوگ عشق کی محفل کو بدنام کرتے ہیں۔شاعر کا حکم ہے کہ ایسے کم ظرف انسان کو ہماری محفل سے نکال دو۔ عشق کا راستہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، یعنی جو بڑے سے بڑے راز اور مقام پا کر بھی عاجز رہیں اور اپنے حواس قائم رکھیں۔
حوالہ شعر:
ظرف والوں نے پی کے گم کر دی
کم ظرفوں نے پی کے ہنگامہ کر دیا
فنی نکات:
* محاورہ: “بہک جانا” کا خوبصورت استعمال۔
* صنعتِ تضاد: تنگ نظر اور اہلِ ظرف۔
شعر نمبر 3
کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے
مگر اس پہ کوئی کرے بھی کیا یہ تو میکدے کا نظام ہے
مفہوم:
دنیا میں کوئی خوشحال ہے، کوئی محروم ہے اور کسی کو نعمت مل رہی ہے۔ اس تقسیم پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا کیونکہ یہ کائنات (میکدے) چلانے والے (اللہ) کا اپنا نظام ہے۔
مشکل الفاظ کے معنی:
* مست : سیراب، خوشحال
* تشنہ لب : پیاسا، محروم، ضرورت مند
* جام : پیالہ (مراد: رزق یا نعمت)
تشریح:
یہ شعر رضا بالقضا (قسمت پر راضی رہنا) کا بہترین نمونہ ہے۔ جگر دنیا کو ایک مے کدے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں ہر کسی کی حالت مختلف ہے۔ کوئی وصل کے نشے میں مست ہے، کوئی ہجر میں پیاسا تڑپ رہا ہے، اور کوئی ابھی نعمت حاصل کرنے کے مرحلے میں ہے۔
عام انسان اس ناہمواری پر شکوہ کرتا ہے، مگر شاعر کہتا ہے کہ “اس پہ کوئی کرے بھی کیا”۔ یعنی یہ تقسیم ساقیِ ازل (خدا) کی حکمت کے تحت ہے۔ اس نظام میں دخل اندازی کرنا انسان کے بس میں نہیں۔ ایک سچے عاشق کا کام صرف یہ ہے کہ جو حالت اسے نصیب ہو، اس پر راضی رہے اور تسلیم و رضا کا پیکر بنے۔
حوالہ شعر:
؎ یہ مسائلِ تصوف، یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا
(مرزا غالب)
فنی نکات:
* مراعات النظیر: مست، تشنہ لب، جام، میکدہ۔
* منظر نگاری: شعر میں ایک محفل کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔
شعر نمبر 4
یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہان سے
جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے
مفہوم:
واعظ (شیخ) کا نظریہ میری سمجھ سے باہر ہے کہ جو شراب جنت میں پینا حلال اور انعام ہے، وہی شراب اس دنیا میں پینا گناہ اور حرام کیوں ہے؟ (یہ دراصل مذہبی ظاہر داری پر طنز ہے)۔
مشکل الفاظ کے معنی:
* فلسفہ : نظریہ، سوچ
* عجیب : انوکھا
* وہاں : جنت میں (شرابِ طہور)
* یہاں : دنیا میں
تشریح:
اس شعر میں جگر مراد آبادی نے روایتی مذہبی پیشواؤں (شیخ/واعظ) پر طنز کیا ہے جو مذہب کی روح کو سمجھنے کے بجائے صرف لفظی پابندیوں میں الجھے رہتے ہیں۔ شیخ صاحب لوگوں کو جنت کی شراب (شرابِ طہور) کے لالچ دے کر دنیاوی زندگی میں پرہیزگاری کا درس دیتے ہیں۔
جگر عاشقانہ شوخی سے سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسا عجیب فلسفہ ہے؟ اگر شراب بذاتِ خود بری چیز ہے تو جنت میں کیوں ملے گی؟ اور اگر اچھی ہے تو یہاں کیوں منع ہے؟ دراصل، شاعر کا اشارہ یہ ہے کہ وہ “شرابِ عشق” کی بات کر رہے ہیں۔ شیخ اسے دنیاوی نشہ سمجھ کر حرام کہتا ہے، جبکہ عاشق کے نزدیک الہی محبت کا نشہ ہی اصل عبادت ہے جو یہاں بھی حلال ہے اور وہاں بھی۔
حوالہ شعر:
؎ واعظ ! نہ تم پیو، نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہور کی
(فیض احمد فیض)
فنی نکات:
* طنز: شیخ کے فلسفے پر گہرا طنز کیا گیا ہے۔
* صنعتِ تضاد: ‘وہاں’ اور ‘یہاں’، ‘حلال’ اور ‘حرام’۔
شعر نمبر 5 (مقطع)
اسی کائنات میں اے جگرؔ کوئی انقلاب اٹھے گا پھر
کہ بلند ہو کے بھی آدمی ابھی خواہشوں کا غلام ہے
مفہوم:
اے جگرؔ! اس دنیا میں ایک بڑے روحانی یا اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہے، کیونکہ انسان نے مادی ترقی تو بہت کر لی ہے (چاند ستاروں تک پہنچ گیا ہے) مگر اخلاقی طور پر وہ آج بھی اپنی پست خواہشات کا غلام ہے۔
مشکل الفاظ کے معنی:
* انقلاب : بڑی تبدیلی
* بلند ہونا : ترقی کرنا، عروج پانا
* خواہشوں کا غلام : نفسانی خواہشات کا قیدی
تشریح:
مقطع میں جگر مراد آبادی ایک مفکر کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ وہ دورِ حاضر کے انسان کا المیہ بیان کرتے ہیں۔ انسان نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے پناہ ترقی کر لی ہے، وہ فضاؤں کو تسخیر کر رہا ہے اور مادی طور پر بہت “بلند” ہو چکا ہے۔
لیکن شاعر کی نظر میں یہ بلندی ادھوری ہے۔ انسان کا کردار آج بھی پست ہے۔ وہ آج بھی لالچ، ہوس، اور نفسانی خواہشات کے ہاتھوں مجبور ہے۔ جگر پیش گوئی کرتے ہیں (یا امید ظاہر کرتے ہیں) کہ ایک ایسا انقلاب آئے گا جو انسان کو صرف مادی نہیں بلکہ “روحانی اور اخلاقی” بلندی عطا کرے گا، تبھی وہ خواہشات کی غلامی سے آزاد ہو کر صحیح معنوں میں “اشرف المخلوقات” کہلانے کا حقدار ہوگا۔
حوالہ شعر:
؎ غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
(علامہ اقبال)
فنی نکات:
* تخلص: شاعر نے اپنا تخلص “جگر” استعمال کیا ہے۔
* فکری پہلو: یہ شعر محض عاشقانہ نہیں بلکہ ایک سماجی اور آفاقی حقیقت کا ترجمان ہے۔
Discover more from The First Info
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.