غزل
شاعر: میر تقی میرؔ
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
لگنے نہ دے بس ہو تو اس کے گوہر گوش کو بالے تک
اس کو فلک چشم مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے
آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہو گا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے
چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارہ جانے ہے
کیا ہی شکار فریبی پر مغرور ہے وہ صیاد بچہ
طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنے اساریٰ جانے ہے
مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے
کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا
جس بے دل بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے
رخنوں سے دیوار چمن کے منہ کو لے ہے چھپا یعنی
ان سوراخوں کے ٹک رہنے کو سو کا نظارہ جانے ہے
تشنۂ خوں ہے اپنا کتنا میرؔ بھی ناداں تلخی کش
دم دار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے
کتاب: دیوان میر
عزیز طالبِ علم! جس غزل کی ہم تشریح کر رہے ہیں، یہ اردو ادب کے ایک معتبراور بڑے شاعرمیر تقی میرؔ کے کلام سے منتخب کی گئی ہے۔
تعارفِ شاعر : میر تقی میر
القابات: خدائے سخن، شہنشاہ غزل، ناخدائے سخن
میر تقی میرؔ (1723ء – 1810ء) اردو غزل کی تاریخ کا وہ روشن ستارہ ہیں جس کی روشنی کے بغیر اردو شاعری کا تذکرہ ناممکن ہے۔ آپ آگرہ (اکبر آباد) میں پیدا ہوئے اور بعد میں دلی اور لکھنؤ میں زندگی بسر کی۔ ان کی زندگی مسلسل غموں، محرومیوں اور ہجرت کے دکھوں سے عبارت تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں انتہا درجے کا درد، سوز اور اداسی پائی جاتی ہے۔ میر تقی میرؔ، جو “خدائے سخن” اور “شاعری کے امام” کے طور پر جانے جاتے ہیں، اردو غزل کو سوز و گداز اور دردمندی کی وہ گہرائی عطا کی جو لازوال ہے۔ ان کی شاعری ان کی ذاتی محرومیوں اور دلی کی بربادیوں کا نوحہ ہے۔سادہ الفاظ میں وہ “دل” اور “دلی” دونوں کی بربادی کے نوحہ گر ہیں۔ میؔر کی سب سے بڑی خوبی ان کی سادگی ہے۔ وہ مشکل سے مشکل مضمون کو بھی اتنے سادہ اور عام فہم الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ دل میں اتر جاتا ہے۔ شاعری میں میر ؔکا مقام اتنا بلند ہے کہ مرزا غالب جیسا عظیم شاعر بھی ان کی استادی کا اعتراف کرتا ہے۔
بقول غالبؔ
ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

استادِ ادب کی حیثیت سے، میں آپ کے لیے میر تقی میر کی اس لازوال غزل کے تمام اشعار کی تفصیلی اور معیاری تشریح، مقررہ اصولوں کے مطابق پیش کر رہا ہوں۔ ہر شعر کے مفہوم کو مزید واضح کرنے کے لیے مناسب شاہدِ شعری (Poetic Evidence) بھی شامل کیا گیا ہے۔
شعر نمبر 1 کی تشریح
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
: حوالہ
خدائے سخن میر تقی میر، جو غمِ عشق کی شدت کے بیان میں یکتا ہیں، اس شعر میں عاشق کی رسوائی اور محبوب کی بے نیازی کا نہایت مؤثر نقشہ کھینچتے ہیں۔
: مفہوم
میرے عشق اور غم کا چرچا کائنات کی ہر چھوٹی بڑی شے میں نظر آتا ہے، البتہ محبوب اپنی بے نیازی میں میرے حال سے جان بوجھ کر انجان ہے۔
:مشکل الفاظ کے معنی
پتا پتا بوٹا بوٹا : باغ کا ہر ایک پتا اور پودا (مراد: کائنات کی ہر شے)
- گل : پھول (مراد: محبوب، معشوق)
- باغ : چمن (مراد: دنیا، محبوب کی محفل یا رقیب)
: تشریح
میر صاحب کی شاعری کا بنیادی وصف دردمندی ہے۔ اس شعر میں وہ اپنے غم کی شدت کو صنعتِ مبالغہ کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ میرا عشق اب کوئی چھپا ہوا راز نہیں رہا بلکہ یہ تو اتنا عام ہو چکا ہے کہ باغ کا ہر پتا اور ہر پودا (یعنی دنیا کی ہر شے) میری بربادی اور حسرت سے واقف ہے۔ میں اپنے دکھ میں اس قدر تنہا اور بے کس ہوں کہ میری داستان ہر جگہ بیان کی جا رہی ہے۔
دوسرے مصرعے میں وہ اپنے محبوب کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں اور ایک لطیف شکوہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جسے گل (محبوب) کہا جاتا ہے، وہ شاید تجاہلِ عارفانہ (جان بوجھ کر انجان بننے) کا مظاہرہ کر رہا ہے، اور میرے حال سے ناواقف ہے۔ یہ بے پروائی عاشق کے لیے سب سے بڑی سزا ہے۔ مزید برآں، فوراً کہتے ہیں کہ اگرچہ گل (محبوب) نہیں جانتا، مگر باغ (دنیا، اہل محفل) سب جانتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میرے عشق کی سچائی اور شدت دنیا کے لیے ایک کھلی کتاب ہے، صرف میرا ہی مطلوب اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔
:فنی نکات
- صنعتِ تکرار: ‘پتا پتا بوٹا بوٹا’ میں موسیقیت اور زورِ بیان پیدا کیا گیا ہے۔
- صنعتِ مراعات النظیر: ‘پتا’، ‘بوٹا’، ‘گل’، ‘باغ’ کا استعمال۔
- استعارہ: ‘گل’ محبوب کا اور ‘باغ’ دنیا کا استعارہ ہے۔
بقول شاعر:
میں بھی ہوں میر کا پہچاننے والا کہ ہوں
میر اسی کا ، جو کسی کا نہ ہوا (غالبؔ)
شعر نمبر 2 کی تشریح
لگنے نہ دے بس ہو تو اس کے گوہر گوش کو بالے تک
اس کو فلک چشم مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے
: حوالہ
میر تقی میر، جو محبوب کے حسن اور اس پر کیے گئے خود پرستی کے عروج کا بیان کرتے ہیں، یہاں محبوب کے غرور اور خود آرا ہونے کی ایک اور کیفیت پیش کر رہے ہیں۔
: مفہوم
میرے محبوب کا غرور اس قدر زیادہ ہے کہ اگر اس کا بس چلے تو اپنے کان کے موتی کو بھی بالے (حلقے) تک لگنے نہ دے۔ وہ خود کو چاند اور سورج کی آنکھ کا تارا سمجھتا ہے۔
: مشکل الفاظ کے معنی
- بس ہو تو : اگر اختیار ہو، اگر چاہے۔
- گوہر گوش : کان کا موتی، وہ زیور جو کان میں پہنا جاتا ہے۔
- بالے : بالی، کان کا حلقہ۔
- فلک : آسمان، زمانہ۔
- مہ و خور : چاند اور سورج۔
- پتلی کا تارا : آنکھ کا نور، بہت پیارا، نورِ نظر۔
: تشریح
شاعر محبوب کے غرور کی انتہا اور ناز و ادا کو بیان کرتے ہیں۔ پہلے مصرعے میں ایک حیرت انگیز منظر پیش کیا گیا ہے۔ میر صاحب فرماتے ہیں کہ میرے محبوب کی خود پسندی کا یہ عالم ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنے کان کے زیور میں لگے موتی کو بھی بالی کے حلقے تک چھونے نہ دے، یعنی وہ اپنی ذات پر کسی دوسری چیز کے لمس کو بھی گوارا نہیں کرتا، چاہے وہ چیز بھی اس کے اپنے زیور کا حصہ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ کمالِ ناز اور نفاست کا مظاہرہ ہے جو عاشق کو مزید بے قرار کرتا ہے۔
دوسرے مصرعے میں اس تکبر کی وجہ بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دراصل محبوب خود کو عام نہیں سمجھتا بلکہ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ وہ آسمان اور دنیا کی نظر میں اس قدر قیمتی ہے جیسے چاند اور سورج کی آنکھ کا نور یا پتلی کا تارا ہوتا ہے۔ چونکہ تارا سب سے عزیز اور نازک ہوتا ہے، اس لیے وہ خود کو بے حد قیمتی اور حساس سمجھتا ہے۔ اسی احساسِ برتری کی وجہ سے وہ زمین کی کسی بھی شے کو خود سے قریب آنے نہیں دیتا۔ یہ شعر محبوب کی ذاتی پرستش اور عاشق سے دوری کو گہرائی سے بیان کرتا ہے۔
: فنی نکات
- صنعتِ حسنِ تعلیل: محبوب کے غرور کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ خود کو چاند سورج کی آنکھ کا تارا سمجھتا ہے۔
- تشبیہ: محبوب کو ‘چشم مہ و خور کی پتلی کا تارا’ سے تشبیہ دی گئی ہے جو نہایت خوبصورت ہے۔
- مضمون آفرینی: زیور کو جسم سے دور رکھنے کا مضمون باندھنا میر کا خاص اختراع ہے۔
بقول شاعر:
کوئی دن اور بھی جینے دے کہ میں
اب کے کچھ اور ستم سہنے کے قابل ہوا ہوں (میرؔ)
شعر نمبر 3 کی تشریح
آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے
: حوالہ
میر تقی میر اس شعر میں محبوب کے استغنا (بے نیازی) اور تکبر کو اس حد تک پہنچا دیتے ہیں کہ وہ اسے انسانی دائرے سے باہر ایک مغرور خود مختار ہستی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
: مفہوم
اس حد سے زیادہ مغرور محبوب کے سامنے اللہ کا واسطہ یا اس کا نام لے کر فریاد کرنے کا کیا فائدہ، وہ خود پسند شخص تو حاضر و ناظر خدا کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
: مشکل الفاظ کے معنی
- متکبر : تکبر کرنے والا، مغرور۔
- خدا خدا کرنا : فریاد کرنا، خدا کا واسطہ دینا۔
- مغرور : ناز کرنے والا۔
- خود آرا : اپنی ذات میں مگن، خود کو سنوارنے والا۔
: تشریح
شاعر ایک طرح کی مایوسی اور بے بسی کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کا محبوب کس قدر متکبر اور بے رحم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا محبوب اپنے حسن کے نشے میں اس قدر مست ہے کہ اگر اس کے سامنے ظلم کی شکایت میں خدا کا نام بھی لیا جائے یا اس کی رحمت کی دہائی دی جائے، تو وہ بالکل بے اثر ہوتی ہے۔ یہ عمل عاشق کی آخری کوشش ہوتی ہے کہ وہ خدا کا واسطہ دے کر محبوب کو نرم کرے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر اس نا امیدی کی منطقی وجہ بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو شخص مغرور اور خود آرا ہو، یعنی جو اپنی ذات اور اپنے حسن کے علاوہ کسی دوسرے وجود یا ہستی کا ادراک نہ رکھتا ہو، وہ بھلا حاضر و ناظر خدا کو کب تسلیم کرے گا؟ محبوب کی خود پسندی کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کو سب سے برتر سمجھتا ہے۔ جس شخص کا غرور اسے خدا کے وجود کو نہ ماننے دے، اس سے کسی انسان (عاشق) کی فریاد پر رحم کی توقع رکھنا عبث ہے۔ اس شعر میں محبوب کو تقریباً فرعون کے مقام پر فائز کر دیا گیا ہے، جو صرف اپنی ذات کو ہی حقیقت مانتا ہے۔
: فنی نکات
- صنعتِ مبالغہ: محبوب کے غرور کو خدا کے وجود کو نہ ماننے کی حد تک پہنچانا۔
- تشخیص: محبوب کے غرور کی وجہ سے خدا کو نہ جاننے کی بات کرنا۔
- تاثر: عاشق کی مکمل بے بسی اور بے کسی کا بھرپور تاثر۔
بقول شاعر:
وہ اک بات تھی جو کفر سے بچا لیتی
ورنہ خدائی میں کیا کچھ نہیں خدا نہ ہوا (فیض احمد فیضؔ)
شعر نمبر 4 کی تشریح
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہو گا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے
: حوالہ
میر تقی میر، جو عاشق کے معصومانہ پن، اس کی سادگی اور محبوب کے ہاتھوں اس کی ذلت کو بیان کرنے میں ماہر ہیں، اس شعر میں عاشق کی سادہ لوحی کا اعتراف کرتے ہیں۔
: مفہوم
عاشق سے زیادہ سادہ لوح شخص دنیا میں کوئی نہیں ہو سکتا، کہ وہ اپنی جان کا نقصان اٹھانے کو بھی محبوب کے عشق میں اپنا سود یا کامیابی سمجھتا ہے۔
: مشکل الفاظ کے معنی
- سادہ : سادہ لوح، معصوم، کم عقل۔
- جی کے زیاں : جان کا نقصان، زندگی کا ضائع ہونا۔
- وارا : فائدہ، نفع، سودا یا کامیابی۔
: تشریح
شاعر عاشق کو دنیا کا سب سے سادہ لوح اور معصوم شخص قرار دیتے ہیں۔ پہلے مصرعے میں عاشق کی اس فطرت پر اظہارِ افسوس کیا گیا ہے کہ وہ دنیا کے تمام لوگوں سے زیادہ نادان اور احمق ہے۔ دنیا کا ہر شخص اپنے نفع و نقصان کو دیکھتا ہے، لیکن عاشق واحد ہستی ہے جو الٹا چلتا ہے۔
دوسرے مصرعے میں اس کی سادہ لوحی کی وضاحت کی گئی ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ وہ جان کا نقصان (جی کا زیاں) اٹھانے کو بھی محبوب کے عشق میں اپنا وارا (فائدہ یا سود) سمجھتا ہے۔ یعنی جہاں عقل مند لوگ زندگی اور مال بچاتے ہیں، وہاں عاشق اپنی زندگی لٹا کر بھی خود کو کامیاب سمجھتا ہے۔ یہ عاشق کا اخلاص اور اس کے جذبے کی سچائی ہے، کہ اس کے لیے محبوب کا عشق ہی اصل سرمایہ ہے۔ اس کے لیے ہستی کا زیاں دنیاوی پیمانوں پر گھاٹا ہو سکتا ہے، مگر عشق کی دنیا میں یہ فنا فی المحبوب کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کی دلیل ہے۔ شاعر کی یہ بات دراصل لطیف طنز بھی ہے اور عشق کی عظمت کا اعتراف بھی۔
: فنی نکات
- تشخیص: عاشق کے کردار کو ‘دنیا کا سب سے سادہ’ قرار دینا۔
- صنعتِ تضاد: ‘زیاں’ (نقصان) کو ‘وارا’ (فائدہ) سمجھنا۔
- حکمت و دانائی: شعر میں ایک فلسفیانہ نکتہ ہے کہ عشق کی قدریں دنیاوی قدروں سے مختلف ہوتی ہیں۔
بقول شاعر:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے (غالبؔ)
شعر نمبر 5 کی تشریح
چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارہ جانے ہے
: حوالہ
میر تقی میر اس شعر میں عاشق کی مجبوری، محبوب کی روایتی بے رحمی اور اس کے ہٹ دھرم رویے کو اردو غزل کی روایتی بنیادوں پر بیان کرتے ہیں۔
: مفہوم
محبوب کے شہر میں دل کی بیماری کا علاج کرنے کا رواج نہیں ہے، ورنہ یہ نادان دلبر بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ میرے اس درد کا علاج کس طرح کیا جاتا ہے۔
:مشکل الفاظ کے معنی
- چارہ گری : علاج، دوا، دکھ دور کرنا۔
- بیماری دل : عشق کا درد، دل کی تکلیف۔
- رسم شہر حسن : خوبصورتی کے شہر (محبوب کی دنیا) کا رواج۔
- دلبر ناداں : نادان محبوب (جس پر عاشق کو ناز ہے)۔
- چارہ : علاج، دوا۔
: تشریح
شاعر یہاں عشق اور حسن کی دنیا کا ایک مسلمہ اصول بیان کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ عاشق کے دل کی بیماری یعنی عشق کا علاج کرنا، شہرِ حسن (محبوب کے رہنے کی جگہ) کا کوئی رواج یا دستور نہیں ہے۔ یہ ایک روایتی بے اعتنائی ہے جو محبوب کی شان کا حصہ ہوتی ہے۔ اگر محبوب عاشق کا علاج کرنا شروع کر دے تو پھر اس کے حسن کی بے نیازی ختم ہو جائے گی۔ گویا یہ بے رخی خود اس کی عظمت کی دلیل ہے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر اس بے رحمی کا سارا الزام جہالت پر نہیں ڈالتے، بلکہ اسے عمدی فعل قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ورنہ ایسا نہیں ہے کہ میرا نادان دلبر اس درد کے علاج سے واقف نہ ہو۔ وہ بالکل جانتا ہے کہ عاشق کے دکھ کا علاج صرف ایک مسکراہٹ، ایک عنایت یا ایک التفات سے ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ جانتے بوجھتے بھی اس لیے علاج نہیں کرتا کہ شہرِ حسن کا یہی طریقہ ہے۔ اس طرح محبوب کا کردار معصوم جہالت کے بجائے تکبر اور ستم ظریفی کا بن جاتا ہے۔
: فنی نکات
- رمز و کنایہ: ‘شہر حسن’ سے محبوب کے اختیارات اور شانِ بے نیازی کی طرف کنایہ ہے۔
- تضاد: محبوب کا ‘نادان’ ہونا لیکن علاج کے طریقے کو ‘جاننا’ ایک خوبصورت تضاد ہے۔
- لطیف شکوہ: شاعر نے رسم و رواج کی آڑ میں محبوب پر لطیف شکوہ کیا ہے۔
بقول شاعر:
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی پر سے گزر جانی اور ہے (میرؔ)
شعر نمبر 6 کی تشریح
کیا ہی شکار فریبی پر مغرور ہے وہ صیاد بچہ
طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنے اساریٰ جانے ہے
: حوالہ
میر تقی میر اس شعر میں محبوب کو بے رحم شکاری کے روپ میں پیش کرتے ہیں اور اس کی پکڑ اور غلبے کو بیان کر کے عاشق کی لاچاری کو واضح کرتے ہیں۔
: مفہوم
وہ نوجوان شکاری (محبوب) اپنی شکار فریبی (چالاکی) پر کس قدر مغرور ہے، کہ ہوا میں اڑتے ہوئے تمام پرندوں کو بھی اپنا قیدی سمجھتا ہے۔
: مشکل الفاظ کے معنی
- شکار فریبی : شکار کو جال میں پھنسانے کی چال، فریب سے شکار کرنا۔
- مغرور : ناز کرنے والا، تکبر کرنے والا۔
- صیاد بچہ : کم عمر شکاری (مراد: خوبصورت نوجوان محبوب)۔
- طائر : پرندے (مراد: عاشق، یا دنیا کے لوگ)۔
- اساریٰ : اسیر کی جمع، قیدی، گرفتار۔
: تشریح
شاعر نے یہاں محبوب کو ایک معصوم صورت مگر بے حد چالاک اور مغرور شکاری (صیاد بچہ) کے روپ میں پیش کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس نوجوان شکاری کو اپنی فریب کاری اور حسن کے جال پر کتنا ناز ہے۔ وہ اپنے طاقت و اختیار پر اتنا تکبر کرتا ہے کہ اسے لگتا ہے اس دنیا میں موجود ہر شخص اس کے دامِ فریب میں پھنسا ہوا ہے۔
دوسرے مصرعے میں صیاد بچہ کے غرور کی وضاحت کی گئی ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس کا غرور یہ ہے کہ جو طائر (پرندے) ابھی ہوا میں اڑ رہے ہیں اور آزاد نظر آتے ہیں، وہ ان سب کو بھی اپنا قیدی (اساریٰ) سمجھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محبوب کو اپنے حسن کی جاذبیت اور گرفت پر اتنا اعتماد ہے کہ وہ سمجھتا ہے، جو لوگ ابھی اس کے عشق سے محفوظ ہیں، وہ بہت جلد اس کے دام میں آ جائیں گے۔ یہ شعر محبوب کی آفاقی گرفت اور عاشق کی بے چارگی کو بیان کرتا ہے جو اس صیاد بچہ کی بے رحمی کو جانتا ہے مگر خود بھی شکار ہو چکا ہے۔
: فنی نکات
- استعارہ: ‘صیاد بچہ’ محبوب کا، اور ‘طائر’ عاشقوں کا استعارہ ہے۔
- صنعتِ تلازمہ: ‘صیاد’، ‘شکار’، ‘طائر’، اور ‘اساریٰ’ میں تلازمہ ہے۔
- مبالغہ: آزاد پرندوں کو بھی قیدی سمجھنا، صیاد کے غرور کا مبالغہ ہے۔
بقول شاعر:
ہوش و حواس و تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سارا جہاں سلامت (داغ دہلویؔ)
شعر نمبر 7 کی تشریح
مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے
: حوالہ
میر تقی میر اس شعر میں محبوب کے اخلاقی رویے کا تجزیہ کرتے ہیں اور اس کے سخت دل ہونے کا شکوہ کرتے ہوئے، اس کی تمام تر چالبازیوں اور فنکارانہ صلاحیتوں کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔
: مفہوم
محبوب ان (رحم دلی کے) الفاظ: مہر، وفا، لطف اور عنایت میں سے کسی ایک کے مفہوم سے بھی واقف نہیں، البتہ وہ طنز، کنایہ، رمز اور اشارہ جیسے تمام فنکارانہ طریقے جانتا ہے۔
: مشکل الفاظ کے معنی
- مہر و وفا : محبت اور وعدہ پورا کرنا۔
- لطف و عنایت : مہربانی اور کرم کرنا۔
- واقف ان میں نہیں : ان (اچھی صفات) میں سے کسی کو نہیں جانتا۔
- طنز و کنایہ : چوٹ کرنا اور اشاروں میں بات کرنا۔
- رمز و اشارہ : چھپی ہوئی بات اور آنکھ یا ابرو کا اشارہ۔
: تشریح
شاعر محبوب کے سخت دل ہونے کا شکوہ کرتے ہوئے ایک فہرست پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے محبوب کے دل میں انسانی ہمدردی اور رحم دلی کا کوئی جذبہ موجود نہیں۔ وہ مہر (محبت)، وفا (وعدہ پورا کرنا)، لطف (مزہ دینا) اور عنایت (کرم) جیسے اخلاقی الفاظ اور ان کے معانی سے قطعی نابلد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ محبوب کی ڈکشنری میں نرمی اور شفقت کا کوئی لفظ شامل نہیں۔
دوسرے مصرعے میں شاعر یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اگرچہ وہ رحم دلی نہیں جانتا، مگر وہ دوسری تمام فنکارانہ اور زبردست چالاکیاں جانتا ہے۔ وہ طنز کرنا، کنایہ (پوشیدہ بات) سے چوٹ کرنا، اور آنکھوں یا ادا سے رمز و اشارہ کرنا بہت خوبی سے جانتا ہے۔ گویا شاعر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ محبوب نادان نہیں ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ عاشق پر وار کس طرح کیا جاتا ہے، مگر وہ مرہم لگانا نہیں جانتا۔ یہ اس کی عمدی بے رحمی اور فن پر اس کی مہارت کو ظاہر کرتا ہے جو عاشق کو زخم پر زخم دیتی ہے۔
: فنی نکات
- صنعتِ ترادف: ‘مہر و وفا و لطف و عنایت’ اور ‘طنز و کنایہ رمز و اشارہ’ کا استعمال۔
- تضاد: رحم دلانہ صفات سے ناواقفیت اور چالبازانہ صفات میں کمال کا تضاد۔
- تعداد شماری: چار اچھے اوصاف اور چار برے (فنکارانہ) اوصاف کا بیان۔
بقول شاعر:
ہزار کام کے ہوتے ہیں کج ادائی کے
یہی تو بات ہے جو مجھ کو تجھ سے پیاری ہے (داغ دہلویؔ)
شعر نمبر 8 کی تشریح
کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا
جس بے دل بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے
: حوالہ
میر تقی میر اس شعر میں محبوب کی ستم ظریفی اور عاشق کی کمزوری کا موازنہ کرتے ہوئے، محبوب کے ظالمانہ رویے کی شکایت اور عاشق کی عشق میں ثابت قدمی کو بیان کرتے ہیں۔
: مفہوم
ہمارا محبوب اس کمزور، بے تاب اور ناتواں عاشق پر نہ جانے کیا کیا مصیبتیں لاتا ہے، جسے دنیا عشق کا مارا ہوا سمجھتی ہے۔
: مشکل الفاظ کے معنی
- فتنے : مصیبتیں، آفتیں، پریشانیاں۔
- معشوق : محبوب۔
- بے دل : ہمت ہار چکا، دل کا ٹوٹا ہوا، مایوس۔
- بے تاب و تواں : بے قرار اور بے طاقت، کمزور۔
- عشق کا مارا : عشق میں مبتلا ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار شخص۔
: تشریح
شاعر ایک نا انصافی پر مبنی منظر بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے محبوب کی ستم ظریفی کی حد یہ ہے کہ وہ اس عاشق پر طرح طرح کی مصیبتیں اور آفتیں (فتنے) لاتا ہے۔ یہ بات ایک ظلم سے کم نہیں کہ طاقتور شخص کمزور پر مزید ستم ڈھائے۔ عاشق کو شاعر نے ان الفاظ سے پکارا ہے: بے دل (جس کا حوصلہ ٹوٹ چکا)، بے تاب (جو بے قرار ہے) اور ناتواں (جو جسمانی طور پر کمزور ہو چکا ہے)۔
دوسرے مصرعے میں عاشق کی کمزوری کو مزید واضح کیا گیا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ یہ وہی شخص ہے جسے دنیا عشق کا مارا ہوا یعنی ہلاک شدہ اور بے بس سمجھتی ہے۔ کسی بھی رحم دل شخص کو ایسی ناتواں ہستی پر مزید ظلم نہیں کرنا چاہیے، مگر محبوب کو اس کی بے بسی پر بھی رحم نہیں آتا۔ درحقیقت، محبوب کی ستم ظریفی کا اصل مقصد عاشق کے صبر و استقامت کو جانچنا ہے۔ عاشق کی یہ بے دلی اور ناتوانی ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا عشق کتنا سچا اور جان لیوا ہے۔
: فنی نکات
- توصیف و شدت: ‘بے دل، بے تاب و تواں’ کے ذریعے عاشق کی کمزوری کی مکمل توصیف کی گئی ہے۔
- تکرارِ حرفی: مصرع اولیٰ میں حرف ‘ک’ اور ‘ت’ کی تکرار ہے۔
- سماجی شکوہ: محبوب کے ظلم کے خلاف ایک اخلاقی شکوہ موجود ہے۔
بقول شاعر:
میرے ہی دل میں درد ہے اس کی خبر نہیں
کیا جانیے کہ رنجشِ پیہم کی کیا وجہ (غالبؔ)
شعر نمبر 9 کی تشریح
رخنوں سے دیوار چمن کے منہ کو لے ہے چھپا یعنی
ان سوراخوں کے ٹک رہنے کو سو کا نظارہ جانے ہے
: حوالہ
میر تقی میر نے اس شعر میں محبوب کے ایک اور ناز اور اس کے دکھاوے کو ایک انوکھے مضمون کے ذریعے بیان کیا ہے کہ محبوب سوراخوں کے پیچھے سے بھی خود کو دیکھنا چاہتا ہے۔
: مفہوم
محبوب اپنے چہرے کو باغ کی دیوار کے سوراخوں (رخنوں) کے پیچھے اس لیے چھپا رہا ہے، تاکہ ان چھوٹے سوراخوں سے بھی سو (بہت زیادہ) چہروں یا نظروں کا دیدار ہو جائے (یعنی دیکھنے والے زیادہ ہو جائیں)۔
: مشکل الفاظ کے معنی
- رخنوں : رخنہ کی جمع، سوراخ، شگاف۔
- دیوار چمن : باغ کی دیوار (مراد: محبوب کی حویلی کی دیوار)۔
- منہ کو لے ہے چھپا : اپنے چہرے کو چھپا لیتا ہے۔
- ٹک : تھوڑا سا، ذرا سا۔
- سو کا نظارہ : بہت سارے لوگوں کا دیدار، یا بہت بار دیدار۔
: تشریح
شاعر محبوب کی نازک مزاجی اور خود نمائی کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں۔ پہلے مصرعے میں وہ محبوب کی ایک عجیب حرکت کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ اپنے چہرے کو باغ کی دیوار میں بنے چھوٹے چھوٹے سوراخوں کے پیچھے چھپا لیتا ہے۔ بظاہر یہ پردہ یا احتیاط کا عمل ہے، لیکن شاعر میر کو اس کے پیچھے کی اصل نیت کا علم ہے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر حقیقت کھولتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ پردہ اس لیے کرتا ہے تاکہ وہ ان چھوٹے چھوٹے سوراخوں کے ٹک رہنے سے یہ فائدہ اٹھا سکے کہ دیکھنے والے عاشقوں کی تعداد بہت زیادہ (سو گنی) ہو جائے یا پھر بار بار اس کا دیدار ہو سکے۔ یعنی وہ ذرا سا پردہ کر کے اپنے حسن کی قیمت بڑھانا چاہتا ہے تاکہ دیکھنے والوں کا رش لگ جائے۔ یہ محبوب کی کمالِ ادا شناسی ہے کہ وہ جانتا ہے کہ کس طرح چپھ کر ظاہر ہونے سے اس کے حسن کی جاذبیت اور دیکھنے والوں کا اضطراب بڑھ جائے گا۔ اس طرح معمولی سوراخ بھی سینکڑوں نظروں کا مرکز بن جاتا ہے۔
: فنی نکات
- صنعتِ حسنِ تعلیل: پردہ کرنے کا سبب چھپنا نہیں بلکہ سو نظاروں کی تمنا کو قرار دینا۔
- رندی اور ظرافت: شعر میں ایک لطیف سی رندی اور ظرافت موجود ہے جو محبوب کی نیت کو ظاہر کرتی ہے۔
- اثر آفرینی: ‘منہ کو لے ہے چھپا’ جیسے محاورے کا خوبصورت استعمال۔
بقول شاعر:
لاکھ پردوں میں وہ بیٹھیں پر میں اتنا جانتا
ہے ستم گر پردہ داری اس کی ستم گارانہ (داغ دہلویؔ)
شعر نمبر 10 کی تشریح
تشنۂ خوں ہے اپنا کتنا میرؔ بھی ناداں تلخی کش
دم دار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے
: حوالہ
یہ غزل کا مقطع (آخری شعر) ہے، جہاں میر تقی میر نے اپنا تخلص استعمال کیا ہے۔ وہ عاشق کے عشق میں فنا ہونے اور محبوب کی بے رحمی کو آخری شکل میں بیان کرتے ہیں۔
: مفہوم
میرؔ جیسا نادان اور تلخیوں کا خوگر عاشق اپنے ہی خون کا کس قدر پیاسا ہے کہ وہ محبوب کی تیز دھار تلوار کو بھی گوارا پانی سمجھتا ہے۔
: مشکل الفاظ کے معنی
- تشنۂ خوں : خون کا پیاسا۔
- ناداں : ناسمجھ، سادہ لوح۔
- تلخی کش : غم اور کڑواہٹ پینے والا۔
- دم دار آب تیغ : وہ تلوار جس کی دھار بہت تیز اور چمک دار ہو (آب: چمک، دھار)۔
- آب گوارا : میٹھا پانی، پینے کے قابل پانی۔
: تشریح
شاعر اس مقطع میں اپنی عاشقی اور نادانی کا اعتراف کرتے ہیں۔ وہ خود کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اے میرؔ، تم کتنے نادان اور تلخی کش (غم اور دکھ سہنے کے عادی) ہو کہ اپنے ہی خون کے پیاسے بنے ہوئے ہو۔ یہاں خون کا پیاسا ہونے کا مطلب ہے کہ عاشق کو اپنی موت کا کوئی غم نہیں بلکہ وہ اس کے لیے بے قرار ہے۔
دوسرے مصرعے میں اس موت کی خواہش کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تم نے محبوب کی تیز دھار، چمکدار تلوار کو، جو جان لینے کے لیے ہے، اسے بھی آبِ گوارا (ٹھنڈا میٹھا پانی) سمجھ رکھا ہے۔ آبِ گوارا زندگی کی علامت ہوتا ہے، جبکہ تیغ موت کی علامت ہے۔ یہ عشق کی انتہا ہے کہ عاشق اپنے محبوب کے قاتلانہ عمل کو بھی اپنے لیے راحت اور سکون سمجھتا ہے۔
یہ عاشق کا فنا فی المحبوب کا مقام ہے، جہاں اسے محبوب کے ہاتھ سے ملنے والی موت بھی زندگی سے زیادہ عزیز ہے۔
: فنی نکات
-
مقطع: تخلص ‘میرؔ’ کا استعمال۔
- صنعتِ تضاد: ‘تیغ’ اور ‘آبِ گوارا’ میں شدید ترین تضاد کا حسین استعمال۔
- مجازِ مرسل: ‘آبِ تیغ’ کو ‘آبِ گوارا’ کہنا۔
بقول شاعر:
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں (میر تقی میرؔ)
————————————————————————————————
Discover more from The First Info
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.