Merciless Flood In Pakistan

بے رحم سیلابی لہریں

پاکستان میں اس بار بادل معمول سے کچھ زیادہ ہی برس گئے۔ پری مون مون نے ہی پیاسی زمین کو سیراب کردیا تھا تاہم مون سون کے مختلف سلسلوں نے پاکستان کےطول وعرض میں تباہی پھیلا دی۔ انسانی وسائل اور تدبیروں کو ہرلحاظ سےبےبس اور ناکام بناتی موسلا دھار بارش نے بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیں۔ کچے پکے مکانات اور بلندو بالا عمارات کوبلاتفریق زمین بوس کردیا۔ بارشوں کے بعد سیلاب نے انسانوں کے ساتھ جانوروں کا بھی خیال نہیں کیا اور ان کے سینے پر اپنےزور آورپنجے گاڑتے ہوئے تباہی کے نشانات چھوڑ گیا۔ سیلاب جہاں سے گزرا اپنے ساتھ تباہی اورنسل انسانی کیلئے بہت بڑا سبق چھوڑ گیا۔ بہترمستقبل کی آس لگائے کسان اور ہاری اپنی فصلوں سے بھی محروم ہو گئے ۔زمین کو مضبوطی سے جکڑنے والے درخت بھی سیلابی لہروں کے سامنے مزاحمت نہ کرسکے۔ سیلاب کے تھپیڑوں نےبچوں اور بڑوں کو بلاتفریق نشانہ بنایا۔ہنستے بستےگھروں، گاؤں اور شہروں کی بربادی کی نشانیاں اور انسانی المیے کی درد بھری کہانیاں بن پوچھے آ نکھوں سےامڈ پڑتی ہیں ۔ بھاری بھاری قیمتی گاڑیاں اور جانور سیلابی پانی میں تنکوں کی طرح بہہ رہےتھے۔سیلاب کی براہ راست تباہی کے چشم دید گواہوں کو تو ایسے مناظر ویسے ہی دکھی کرجاتے ہیں،تاہم جن لوگوں پر یہ مصیبت گزرتی ہےان کے جذبات اوردردکا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔

پاکستان میں سیلابی صورت حال

معاشی نقصان کا تو کبھی نہ کبھی مداوا ہو ہی جاتا ہےتاہم انسانی جان کا نہ تو کوئی متبادل ہے اور نہ ہی مداوا ہوسکتا ہے۔ بے رحم سیلابی لہروں نےاب تک1100سے زیادہ افراد کوہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنے پیاروں سے چھین لیا ہے۔ یہ وہ تعداد ہے جو گنتی میں آگئے تاہم ایسے بے شمار لوگ بھی ہیں جن کا اپنے پیاروں کو سراغ تک نہیں۔سیلاب میں جان سےجانے والوں کی یادیں زندہ بچ جانے والوں کوتمام عمر ستاتی رہیں گی۔ سیلاب زدگان اپنے پیاروں کی موت کے ساتھ اپنی زندگی بھر کی جمع پونچی سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔پانی کے تیز ریلوں نے پل بھر میں ان سے چھت چھین کر کھلے آسمان کےرحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔سیلابی پانی جہاں سے گزرا،تاحد نگاہ تباہی کے نشانات چھوڑتاگیا۔

اپنی جان بچا کر گھروں کوخیرباد کہنے والوں کی حالت ایسی ہے جیسے کسی نے ایک ہی لمحے میں ان سے سب کچھ چھین لیا ہو۔ سیلاب نے ایک ایک کرکےصوبہ بلوچستان کے تقریباً تمام علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بارشوں اور سیلاب نےصوبہ سندھ میں بھی ایسی تباہی مچائی ہےکہ باسیوں کی بحالی میں کئی برس لگیں گے۔ دریائے کابل اور سوات نےخیبرپختونخوا پر اپنا غصہ نکالا۔ برسوں پیاسے کابل اور سوات دریا، ایسے سیراب ہوئےکہ کناروں پر دہائیوں سے آبادگاؤں، قصبوں اورشہروں میں تباہی پھیلا دی۔ دونوں دریااپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو تنکوں کی طرح بہا کر لےگئے۔سوات شہر کو قریبی علاقوں سے ملانے والا پل بھی سیلاب کی نذر ہو گیا۔سیلاب نے سوات، چارسدہ، نوشہرہ اور ڈیرہ اسماعیل خان کو شدید متاثر کیا۔

کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے سےنکلتی رود کوہیوں نے ڈیرہ غازی خان کے دامن میں آباد لوگوں سے سب کچھ چھین لیا۔ ڈیرہ غازہ خان، بہاول نگر اور راجن پور کو سیلابی پانی کی لہروں نے شدید متاثر کیاہے۔ تباہی پھیلانے کے بعد کچھ علاقوں میں سیلابی پانی اتر چکا ہے ۔سیلاب کی تباہی سےپھیلی دراڑیں دیکھنے والوں کو درماندہ کردیتی ہیں اور وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے۔

ریسکیو اہلکار سیلاب متاثرین کو محفوظ مقام پر منتقل کررہے ہیں

تاریخ کے بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد حکومت اور عوام متاثرین کو دوبارہ بسانے اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کیلئے پیش پیش ہیں۔ متاثرین کو ریسکیو کرنے اور امدادی کیمپوں میں منتقل کیا جارہاہے۔ سرکاری کیمپوں میں ادھورے، پھٹے لباس اور بکھرے اعتمادوالے سیلاب سے متاثرہ بچےاور بڑے امداد کے منتظر ہیں۔سیلاب متاثرین کیمپ میں آنےوالوں کو ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے وہ ان کی تشفی، دکھوں اور بیچارگی کا سامان لائے ہوں۔سیلاب کے تھپیڑوں سے بچ جانے والے اپنے خوشحال اورہنستے بستے گھروں کویاد کرکے بہت دکھی ہیں۔ من مرضی کی خوراک کھانے والے اب حکومت اور مخیر حضرات کی امداد کے منتظر ہیں۔زیادہ تر سیلاب متاثرین مصنوعی کیمپوں میں آ نے کو تیار نہیں کیونکہ اجڑے گھر ،ٹوٹے در اورہلکان مویشی کہاں چھوڑے جاتے ہیں۔ وسیب سے محبت کرنےوالےاپنے علاقے کو چھوڑنے کو بالکل بھی تیار نہیں ۔ وہ اب بھی امید باندھے بیٹھے ہیں کہ پانی مکمل اترےگا تو علاقے میں ہریالی اورخوش حالی کا دور دورہ ہوگا اوروہ واپس جا کر اپنے گھروں کو دوبارہ آباد کریں گے۔

Leave a comment